• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 59066

    عنوان: صحیح مسلم کی ایک روایت ہے اس میں اقامت کے الفاظ ایک مرتبہ ادا کیئے ہیں اور آج کل کے اہل حدیث اس پر عمل در آمد کرتے ہیں کیا آج کے دور میں اس حدیث پر عمل صحیح ہے ؟

    سوال: سوال 1: صحیح مسلم کی ایک روایت ہے اس میں اقامت کے الفاظ ایک مرتبہ ادا کیئے ہیں اور آج کل کے اہل حدیث اس پر عمل در آمد کرتے ہیں کیا آج کے دور میں اس حدیث پر عمل صحیح ہے ؟ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم فرما یا کہ یہ کتاب سراپا ہدایت ہے اگر کوء استاد نہ ہو پڑانے والا قرآن کریم کو ہم خد پڑ سکتے ہیں خد سمجھ سکتے ہیں کسی آیت کا شان نزول معلوم نہ ہو بس ترجمے کا قرآن پڑ کر ہمں ہدایت مل سکتی ہے قرآن کی تفسیر کو سمجھ نے کیلیے جہاں تک میرا علم ہے قرآن کی تفسیر خد قرآن سے یا حضور ﷺ سے یا پھر صحابہ سے اس کے بعد طابعین سے اک ساتھی کو یہ بات کیسے سمجھایئے کہ قرآن کو سمجنے کیلئے کسی استاد مربی کا ہو نا ضروری ہے ؟

    جواب نمبر: 59066

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 929-925/B=10/1436-U اقامت میں ایتار اور تثنیہ دونوں سے متعلق روایات آئی ہیں، حضرت امام ”شافعی“، حضرت امام ”مالک“، حضرت امام ”احمد بن حنبل“ نے ایتار کو راجح قرار دیا ہے اور حضرت امام ”ابوحنیفہ“ اور ”سفیان ثوری“ نے تثنیہ کو راجح قرار دیا ہے، روایتیں دونوں طرح کی آئی ہوئی ہیں، حنفیہ حضرت ”عبد اللہ بن زید“، اور ”سوید بن غفلہ“ کی روایت سے اور ان احادیث سے استدلال فرمائے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ”بلال“ کو اذان واقامت ہردو میں تثنیہ کا حکم فرمایا ہے۔ یہ روایات بالکل صحیح اور مرفوع ہیں۔ اور ہرقسم کے سُقم سے پاک وصاف ہیں۔ بخلاف ایتار والی روایت کے کہ اس کو ”عبدالوہاب ثقفی“ کے علاوہ اور کوئی مرفوع روایت نہیں کرتا، خود ”یحیی بن معین“ فرماتے ہیں: لم یرفعہ غیر عبدالوہاب قال وکان عبد الوہاب اختلط بآخرہ․ کذا في میزان الاعتدال (ص: ۳۹۵ ج۳) نیز ایتار کی روایات میں مجہول راوی آئے ہوئے ہیں جیسے ”حسن بن کسیب حضرمی، ابوجعفر، ابو المثنی“ وغیرہ نیز اقامت مین تخفیف بعد کے امراء نے کی ہے جیسا کہ مصنف عبدالرزاق نے روایت کی ہے جو امام ”بخاری ومسلم“ سب کے استاذ ہیں۔ نیز حضرت ”مسلم بن الاکوع“، حضرت ”ثوبان“ حضرت ”محذورہ“ اقامت میں تثنیہ کرتے تھے۔ ورُوي عن علي أنہ کان یقول الأذان مثنی والإقامة مثنی، ایک مرتبہ ایک شخص حضرت علی کے پاس آیا وہ اقامت میں ایتار کرتا تھا تو حضرت علی نے فرمایا ألا جعلتہا مثنی لا أمَّ لک ملاحظ ہو ابن ابی شیبہ حدیث (۲۱۳۷) ومصنف عبدالرزاق (حدیث۱۷۹۲) وقال مجاہد في الإقامة واحدة إنہ شيء استحقہ الأمراء․ مصنف عبدالرزاق (۱۷۹۳) (ص۴۶۳، ج۱) تفصیل کے لیے حضرت امام طحاوی کی شرح معانی الآثار دیکھئے۔ (۲) قرآن میں علوم بھرے ہوئے ہیں ان کے لیے بہت سے علوم کا جاننا ضروری ہے، آپ علامہ سیوطی کی الاتقان دیکھیں، انھوں نے ان تمام علوم کا ذکر کیا ہے جن کا حاصل ہونا قرآن سمجھنے کے لیے ضروری ہے، اس کے سمجھنے کے لیے ماہر استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے ڈھائی سال میں صرف سورہٴ بقرہ پڑھی جب کہ وہ اہل زبان تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔ آسان ہوتا تو ڈھائی گھنٹہ میں یا اس سے کم میں پڑھ لیتے۔ حضرت عدی بن حاتم اہل زبان ہوتے ہوئے ”خیط اسود“ اور ”خیط ابیض“ کا مفہوم نہ سمجھ سکے، بغیر استاذ کے تو قرآن کی عبارت ہی کوئی نہیں پڑھ سکتا، اس کے معانی اور حقائق و دقائق کا سمجھنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ حکایت مشہور ہے کہ ایک شخص نے دعوی کیا کہ میں نے قرآن بلا کسی استاذ کے پڑھ لیا ہے، تو کسی نے سورہٴ یوسف کی ابتدائی آیتیں اس سے پڑھنے کے لیے کہا تو اس نے ”الرا “ کو اَلِفْ لاَم رَا پڑھنے کے بجائے یوں پڑھا ”اَلْرَا“، بے استاذ کے علم ایسا ہی ہوتاہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند