• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 58564

    عنوان: اصول حدیث سے متعلق سوال

    سوال: اصول حدیث سے متعلق سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔ ۱- الف۔ وضو سے متعلق حضرت علی  کی حدیث امام ابو حنیفہ سے تین بارمسح کے الفاظ سے ان کے اکثر اور مشہور شاگرد روایت کرتے ہیں ۔ اور کچھ اصحاب ایک بار مسح کی روایت کرتے ہیں ۔ ب۔ امام کی قراَت مقدی کی قراَت ہے ۔حدیث اکثر اصحاب متصل روایت کرتے ہیں اور عبد اللہ بن مبارک اور زفر مرسل روایت کرتے ہیں ۔ بعض محدثین اس جیسی مثالوں میں اکثر اور اثبت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اور دوسری کو مخالفت کی وجہ سے ضعیف کہتے ہیں ۔ کیا اس طرح کہنا صحیح نہیں کہ امام صاحب  کو دونوں طرح روایات ملیں انہوں نے دونوں طرح روایت کر دیں ۔ کیا اس بات کی اصول حدیث سے تائید ہوتی ہے ؟ (۲) کسی راوی کے بارے میں ۔۔من بَیت الْعلمَاء الْفُضَلَاء ۔۔اگر منقول ہو تو کیا یہ الفاظ توثیق میں سے ہیں ؟ (۳) اکثر مقامات پر محدثین کسی راوی کے بارے میں لفظ ۔امام۔ استعمال کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ لفظ الفاظ توثیق میں ۔ثقہ ۔ سے اوپر ہے، لیکن تراجم کی اکثر کتب میں اکثر ضعیف روات کے ساتھ بھی یہ لفظ عام استعمال ہوتا ہے ۔ جبکہ لفظ ۔ثقہ ۔ کے ساتھ ایسا نہیں ہے ؟

    جواب نمبر: 58564

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 590-111/D=6/1436-U (۱) الف: بہتر ہوتا کہ آپ وہ روایتیں نقل کرتے جس میں امام صاحب کے اکثر شاگرد امام صاحب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تین بار سر کا مسح کرنے کی روایت کرتے ہیں اس لیے کہ امام صاحب سے مروی تثلیث کی روایات تثلیث بماء واحد پر محمول ہیں: والذي یروي من التثلیث محمول علیہ بماء واحد وہو مشروع علی ما روی الحسن عن أبی حنیفة: قال ابن الہمام: (وہو مشروع) روی الحسن عن أبي حنیفة في المجرّد: إذا مسح ثلاثا بماء واحد کان مسنونا․ (فتح القدیر: ۱/۳۵، کتاب الطہارة، ط: زکریا، دیوبند) (ب) امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہے، یہ حدیث امام صاحب سے مرفوعا اور مرسلاً دونوں طرح مروی ہے: قال ابن المام: بقي الشان في تصحیحہ؛ وقد روی من طرق عدیدة مرفوعا عن جابر بن عبد اللہ -رضي اللہ عنہ- عنہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد ضعف، واعترف المضعفون لدفعہ مثل الدارقطنی والبیہقي وابن عدي بأن الصحیح بأنہ مرسل․․․ إلی قولہ: وقد أرسلہ مرة أبو حنیفة کذلک․․․ وبعد أسطر: وعلی تقدیر التنزل عن حجّیتہ فقد رفعہ أبو حنیفة بسند صحیح (روی محمدبن الحسن في موطئہ: أخبرنا أبو حنیفة حدثنا أبو الحسن موسی بن أبي عائشة عن بعد اللہ بن شداد عن جابر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من صلی خلف إمام فإن قرائة الإمام لہ قراء ة․ فتح القدیر: ۱/۳۴۵، کتاب الصلاة، فصل فی القرائة ط: زکریا، دیوبند) (۲) من بیت العلماء والفضلاء: موقع کے اعتبار سے اگر ثقاہت کے الفاظ کے ساتھ اس کا ذکر ہے تو ثیق میں اضافہ ہوگا اور اگر نکارت کے ضمن میں ہے تو اس سے توثیق نہ ہوسکے گی۔ (۳) لفظ امام توثیق میں لفظ ثقہ کے برابر ہے، متعدد علماء اصولیین نے اس کی تصریح کی ہے: وخالف الذہبي فعد حافظا ثقة من ہذہ اوأدرج فی ألفاظہما إماما فقط، فتح المغیث ۱/۳۹۳، مراتب التعدیل ط: دار الکتب العلیمة، بیروت، الرفع والتکمیل ص۱۵۸، ط: اتحاد، دیوبند۔ قواعد فی علوم الحدیث، إعلاء السنن ۱۹/ ۲۴۳، ط: اشرفی دیوبند) البتہ اگر کسی ضعیف راوی کے ساتھ لفظ امام استعمال ہوا ہو تو توثیق کے لیے صرف لفظ امام کافی نہیں کسی اور لفظ توثیق کا ہونا ضروری ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند