عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 58377
جواب نمبر: 58377
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 631-596/Sn=9/1436-U (الف) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح بیماری اور پریشانی سے بچنے کے لیے صدقہ کرنے کی ترغیب دی، اس طرح لوگوں کو اپنی بیماریوں کے علاج کرانے کا بھی حکم فرمایا، حدیث میں ہے تداووا؛ فإن اللہ لم یضع داءً إلا وضع لہ شفاءً غیر داء واحد الہرم(مرقاة مع المشکاة، ۸/ ۳۶۱، ط: فیصل) صورت مسئولہ میں ایک سنت پر تو عمل ہورہا ہے دوسری ترک ہورہی ہے؛ اس لیے علاج نہ کرانا کوئی کار ثواب نہیں ہے؛ بلکہ بہ ظاہر سنت کی مخالفت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم علاج کی ترغیب بھی دی، نیز خود اپنا علاج کرایا بھی؛ لیکن علاج چونکہ ایک ظنی چیز ہے، دوا سے شفا یقینی نہیں ہے، اس لیے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر کوئی شخص علاج نہ کرے اور اسی حال میں اس کی موت ہوجائے تو وہ گنہ گار نہ ہوگا․․․․ بخلاف من امتنع عن التداوي حتی مات؛ إذ لا یتیقن بأنہ یشفیہ کما في الملتقی وشرحہ الخ (درمختار مع الشامي، ۹/۴۸۹، ط: زکریا) (ب) صرف اس بنا پر تو ”شہید“ کا حکم نہ لگے گا؛ البتہ بعض بیماریوں کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ ان میں مرنے والا شہید ہے، اس کے اعتبار سے حکم لگے، وہ کونسی بیماریاں ہیں جن میں مرنے والا شہات کا درجہ پاتا ہے تو اس کے لیے ”احکام میت“ موٴلفہ شیخ ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمہ اللہ دیکھیں۔ (ج) یہ حدیثیں غیر محل میں پیش کی گئیں، زیر بحث مسئلے سے ان حدیثوں کا تعلق نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند