• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 58377

    عنوان: میں نے بیماری آنے پہ صدقہ دیا اور صدقے پر مطمئن رہا یعنی نبی کی اس بات پر مطمئن رہا ، صدقہ و خیرات سے اپنی بیماریوں کا علاج کیا کرو

    سوال: میں نے بیماری آنے پہ صدقہ دیا اور صدقے پر مطمئن رہا یعنی نبی کی اس بات پر مطمئن رہا ، صدقہ و خیرات سے اپنی بیماریوں کا علاج کیا کرو ۔ کنز االاعمال حدیث نمبر 58178 اور انگریزی دوا نہیں لی اور اللہ کی شان میری اسی بیماری میں موت آگئی تو کیا یہ شہادت والی موت ہوگی ؟ اس حدیث کی روشنی میں : - مَن تَمَسَّکَ بِسُنَّتِی عِندَ فَسادِ أُمَّتِی فَلہُ أَجْرُ مِائِةِ شَہیدٍ الراوی: عبداللہ بن عباس المحدث: ابن عدی - المصدر: الکامل فی الضعفاء - الصفحة أو الرقم: 3/174 خلاصة حکم المحدث: (فیہ) الحسن بن قتیبة أرجو أنہ لا بأس بہ 8 - مَن تَمَسَّکَ بسُنَّتِی عندَ فَسَادِ أُمَّتِی فلہ أجرُ مِائةِ شہیدٍ الراوی: عبداللہ بن عباس المحدث: الألبانی - المصدر: السلسلة الضعیفة - الصفحة أو الرقم: 326 خلاصة حکم المحدث: ضعیف جداً

    جواب نمبر: 58377

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 631-596/Sn=9/1436-U (الف) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح بیماری اور پریشانی سے بچنے کے لیے صدقہ کرنے کی ترغیب دی، اس طرح لوگوں کو اپنی بیماریوں کے علاج کرانے کا بھی حکم فرمایا، حدیث میں ہے تداووا؛ فإن اللہ لم یضع داءً إلا وضع لہ شفاءً غیر داء واحد الہرم(مرقاة مع المشکاة، ۸/ ۳۶۱، ط: فیصل) صورت مسئولہ میں ایک سنت پر تو عمل ہورہا ہے دوسری ترک ہورہی ہے؛ اس لیے علاج نہ کرانا کوئی کار ثواب نہیں ہے؛ بلکہ بہ ظاہر سنت کی مخالفت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم علاج کی ترغیب بھی دی، نیز خود اپنا علاج کرایا بھی؛ لیکن علاج چونکہ ایک ظنی چیز ہے، دوا سے شفا یقینی نہیں ہے، اس لیے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر کوئی شخص علاج نہ کرے اور اسی حال میں اس کی موت ہوجائے تو وہ گنہ گار نہ ہوگا․․․․ بخلاف من امتنع عن التداوي حتی مات؛ إذ لا یتیقن بأنہ یشفیہ کما في الملتقی وشرحہ الخ (درمختار مع الشامي، ۹/۴۸۹، ط: زکریا) (ب) صرف اس بنا پر تو ”شہید“ کا حکم نہ لگے گا؛ البتہ بعض بیماریوں کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ ان میں مرنے والا شہید ہے، اس کے اعتبار سے حکم لگے، وہ کونسی بیماریاں ہیں جن میں مرنے والا شہات کا درجہ پاتا ہے تو اس کے لیے ”احکام میت“ موٴلفہ شیخ ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمہ اللہ دیکھیں۔ (ج) یہ حدیثیں غیر محل میں پیش کی گئیں، زیر بحث مسئلے سے ان حدیثوں کا تعلق نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند