• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 55316

    عنوان: حدیث، حدیث قدسی اور وحی کے درمیان کیا فرق ہے؟

    سوال: براہ کرم، بتائیں کہ حدیث، حدیث قدسی اور وحی کے درمیان کیا فرق ہے؟

    جواب نمبر: 55316

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 58-58/Sd=11/1435-U محدثین کی اصطلاح میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں اور جس حدیث کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہو، اس کو حدیثِ قدسی کہتے ہیں، جب کہ وحی اس کلام کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی نبی پر نازل فرماتا ہے۔ ان تعریفات سے معلوم ہوا کہ وحی،حدیث اورحدیث قدسی میں فرق ہے، وحی سب سے زیادہ عام ہے، جو قرآن، حدیث اور حدیث قدسی تینوں کو شامل ہے، البتہ اگر وحی سے وحی متلو مراد ہو، تو یہ قرآن کے ساتھ خاص ہوگی اور قرآن اور حدیث قدسی میں فرق یہ ہوگا کہ قرآن تو لفظاً ومعنیً دونوں طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے منزَّل ہے، جب کہ حدیث قدسی میں الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں اور حدیث قدسی اور دیگر احادیث میں فرق یہ ہے کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ سے نقل کی تصریح ہوتی ہے، جب کہ دیگر احادیث میں اللہ تعالیٰ سے نقل کی تصریح نہیں ہوتی۔ قال الشیخ عبد الحق الدہلوی: إن الحدیث في اصطلاح جمہور المحدثین یطلق علی قول النبي صلی اللہ عیلہ وسلم وفعلہ وتقریرہ (مقدمة للشیخ عبدالحق في أول مشکاة المصابیح، ص:۳، ط: یاسرندیم اینڈ کمپنی، دیوبند) وقال الجرجاني: الحدیث القدسي: ہو من حیث المعنی من عند اللہ تعالیٰ ومن حیث اللفظ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فہوما أخبر اللہ تعالی بہ نبیَّہ بالہام أو بالمنام، فأخبر علیہ السلام عن ذلک المعنی بعبارة نفسہ (کتاب التعریفات للجرجاني، ص: ۱۷۴، باب الحاء، ط: مکتبہ فقیہ الأمة، دیوبند) وقال أحمد علي السہارنبوري: الوحي في اصطلاح الشریعة: ہو کلامُ اللہ المنزل علی نبي من أنبیائہ علیہ السلام، (ہامش البخاریي: ۱/۱۷۸، کتاب الوعي، باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ط: دار البشائر الإسلامیة، بیروت، لبنان، وکذا في الیواقیت الغالیة في تحقیق وتخریج الأحادیث العالیة: ۲/۱۳۲، ط: مجلس دعوة الحق، انجلیز)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند