عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 52645
جواب نمبر: 52645
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 969-333/L=8/1435-U احادیث میں جہاں ایک طرف حدیث رسول کی نشر واشاعت اور تبلیغ پر فضائل وارد ہوئے ہیں وہیں دوسری طرف غیرحدیث کو حدیث بناکر پیش کرنے یا غلط طور پر حدیث پیش کرنے کے حوالے سے بہت سخت وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں۔ عن المغیرة قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إن الکذب علي لیس ککذب علی أحد، فمن کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار․ اھ (مقدمہ صحیح مسلم مع فتح الملہم: ۱/۱۲۵) اس لیے ہرمسلمان پر واجب ہے کہ حدیث کو پیش کرنے میں احتیاط سے کام لے مبادا وہ اس وعید میں داخل نہ ہوجائے۔ صورت مسئولہ میں اجمالی جواب یہ ہے کہ جب تک کسی حدیث کی صحت یا ضعف، یا موضوع ہونا، شیئر کرنے والے کو، یا جس تک وہ احادیث پہنچی ہیں، متحقق طور پر معلوم نہ ہو، اس وقت تک نہ ہی وہ خود ان احادیث پر عمل کرے او رنہ ہی بغیر تحقیق وتصدیق کے اسے شیئر کرے۔ اور اگر کوئی ”فیس بک“ پر حدیث پیش کرنا چاہتا ہے تو معتبر کتاب سے مکمل حوالہ جات او رحدیث کے فنی حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے پیش کرے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ کسی معتبر عالم سے رجوع کرنے کے بعد حدیث پیش کرے۔ اس طرح متحقق طور پراحادیث کی حیثیت معلوم ہونے سے قبل محض اٹگل اور گمان سے کسی حدیث کے صحت یا ضعف کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہے۔ عن ربعي من حراش أنہ مسع علیا -رضي اللہ عنہ- یخطب یقول: قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تکذبوا علي؛ فإنہ من یکذب علي یلج فيالنار اھ (صحیح مسلم قال الحافظ في الفتح: ہو عام في کل کذب، مطلق في کل نوع من الکذب، ومعناہ: لا تنسبوا الکذب إلي․ اھ (فتح الملہم: ۱/۱۲۳)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند