• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 43145

    عنوان: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک سینے کو گھیرے ہوے تھی؟

    سوال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِی جَمِیلَةَ عَنْ یَزِیدَ الْفَارِسِیِّ قَالَ رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ ..۔ رَآنِی فِی النَّوْمِ فَقَدْ رَآنِی فَہَلْ تَسْتَطِیعُ أَنْ تَنْعَتَ لَنَا ہَذَا الرَّجُلَ الَّذِی رَأَیْتَ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ رَأَیْتُ رَجُلًا بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ جِسْمُہُ وَلَحْمُہُ أَسْمَرُ إِلَی الْبَیَاضِ حَسَنُ الْمَضْحَکِ أَکْحَلُ الْعَیْنَیْنِ جَمِیلُ دَوَائِرِ الْوَجْہِ قَدْ مَلَأَتْ لِحْیَتُہُ مِنْ ہَذِہِ إِلَی ہَذِہِ حَتَّی کَادَتْ تَمْلَأُ نَحْرَہُ قَالَ عَوْفٌ لَا أَدْرِی مَا کَانَ مَعَ ہَذَا مِنْ النَّعْتِ قَالَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَوْ رَأَیْتَہُ - ص 362 - فِی الْیَقَظَةِ مَا اسْتَطَعْتَ أَنْ (شمائل ترمذی ۳۹۳) احناف ایک مٹھی کے قائل ہیں مگر اس حدیث میں تو نبی اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی داڑھی مبارک سینے کو گھیریتھی؟ سلف صرف حج پر کتروانے کا حکم دیا کرتے تھے۔ ان باتوں کا کیا جواب دیا جائے ان لوگوں کو جو کتروانے کے قائل نہیں جیسے امام نووی اور اہلے حدیث؟

    جواب نمبر: 43145

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 111-92/D=2/1434 ایک مشت سے زائد داڑھی کا تراشنا احناف کے یہاں ضروری نہیں بلکہ اسکا رکھنا اور نہ رکھنا دونوں درست ہے۔ جیسا کہ شامی کی اس عبارت سے ظاہر ہے ”لا بأس بأن یقبض علی لحیتہ فإذا زاد علی قبضتہ شيء جزہ“ (رد المحتار: 3-397) پس یہ حدیث احناف کے خلاف نہیں کہ جواب دینے کی حاجت ہو، بلکہ ترمذی شریف کی ایک روایت سے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تراشنا بھی ثابت ہوتا ہے، عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یأخذ لحیتہ من عرضہا وطولہا (ترمذی/ کتاب الأدب، حدیث نمبر 3726) نیز ابوداوٴد حدیث نمبر 2357 میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا تراشنا بھی منقول ہے۔ اسی طرح فتح الباری : 10/429 اور عمدة القاری: 22/47 میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے بھی تراشنے کا ثبوت ہے۔ پس احناف کا جو مسلک ہے وہ دونوں طرح کی حدیثوں کے مطابق ہے، نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جو خود اِعفاء لحیہ کی روایت کے راوی ہیں، اگر اعفاء لحیہ سے مطلق تراشنے کی نہیں مراد ہوتی تو حضرت ابن عمر کبھی ایسا نہ کرتے۔ صرف حج یا عمرہ کے موقع پر کتروانے کا حکم سلف میں بعض لوگوں کا مذہب تھا، علامہ شوکانی نیل الاوطار: 1/124 میں لکھتے ہیں، ”وقد اختلف السلف في ذلک فمنہم من لم یحد بل قال: لا یترکہا إلی حد الشہرة ویأخذ منہا، وکرہ مالک طولہا جدا، ومنہم من حد بما زاد علی القبضة فیزال، ومنہم من کرہ الأخذ منہا إلا في حج أو عمرة“۔ اسی طرح حافظ ابن حجر نے فتح الباری : 10/429 اور مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے تحفة الاحوذی: 8/38 میں علماء سلف کے چار مذاہب ذکر کیے ہیں۔ (۱) مطلق منع (۲) قبضہ سے زائد ہو تو جواز (۳) حج یا مرہ میں جواز (۴) طولِ فاحش کی صورت میں جواز۔ لہٰذا علی الاطلاق سلف کی طرف جواز منسوب کرنا درست نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند