عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 41820
جواب نمبر: 41820
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 987-982/N=11/1433 آپ نے سنن ابوداوٴد کے حوالہ سے آمین بالجہر کی جو روایت نقل کی ہے اس کی سند دووجہ سے ضعیف ہے، ایک: بشر بن رافع ضعیف راوی ہے، امام بخاری، امام ترمذی، امام نسائی، امام احمد بن حنبل، یحی بن معین، ابن حبان اور ابن القطان جیسے جلیل القدر ائمہ جرح وتعدیل نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، دوسری: ابو عبد اللہ ابن عم ابی ہریرہ مجہول الحال ہے، اور اس سے بشر کے علاوہ کسی نے بھی کوئی روایت نہیں لی، قال الزیلعی: وبشر بن رافع الحارثي ضعفہ البخاري والترمذي والنسائي وأحمد وابن معین وابن حبان، وقال ابن القطان في کتابہ: بشر بن رافع أبو الأسباط الحارثي ضعیف، وہو یروي ہذا الحدیث عن أبي عبد اللہ ابن عم أبي ہریرة، وأبو عبد اللہ ہذا لا یعرف لہ حال ولا روی عنہ غیر بشر، والحدیث لا یصح من أجلہ انتہی کلامہ (نصب الرایة کتاب الصلاة ۱:۳۷۱) اسی طرح آمین بالجہر کے متعلق دیگر جو روایات ہیں ان میں سے ہرایک میں کچھ نہ کچھ خرابی ضرور ہے، قال النیموي: لم یثبت الجہر بالتأمین عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم ولا عن الخلفاء الأربقعة، وما جاء في الباب فہو لا یخلو من شيء کذا في آثار السنن ہاں البتہ بعض صحابہ وتابعین سے آمین بالجہر ثابت ہے، اس لیے احناف اور مالکیہ کے نزدیک آمین بالجہر جائز ودرست تو ہے لیکن خلاف سنت اور غیر اولیٰ وافضل ہے اور اس کے بالمقابل آمین بالسر مسنون اور افضل واولیٰ ہے (مزید تفصیلات کے لیے معارف السنن) ۲: ۳۹۶-۴۲۰ اور بذل المجہود وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند