• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 35412

    عنوان: اگر کسی عالم کے اجتہاد کے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث مل جائے تو کیا کرنا چاہیے؟

    سوال: (۱) مجھے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ … کی ہرحدیث ہمارے لیے حجت ہے؟ (۲) اگر ہم کسی حدیث پر عمل کرنا چاہیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ اس حدیث پر کسی صحابی کا عمل کرنا ثابت ہو؟ (۳) اگر کسی عالم کے اجتہاد کے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث مل جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ (۴) دین کی بنیاد قرآن وسنت ہے یا کچھ اور؟

    جواب نمبر: 35412

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 134=62-2/1433 (۱) جس طرح قرآنِ پاک پورا کا پورا وحی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی امورِ دین کے متعلق سب کی سب وحی اور حجت ہیں، البتہ اگر کوئی حدیث قرآن یا سنت متواترہ کے خلاف ہو یا شاذ ہو یا عملاً متروک ہو تو صحتِ سند اور حجیت کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، إذا اتفق الناس علی ترک العمل بالحدیث المرفوع لا یجوز العملُ بہ لأنہ دلیلُ ضعفہ علی ما عرف في موضعہ (رد المحتار: ۲/۳۸) (۲) یہ بات بالکل ضروری نہیں کہ عمل بالحدیث کے لیے صحابی کا عمل ضروری ہو، البتہ کسی حدیث کا دورِ صحابہ میں متروک العمل ہونا جب کہ وہ عموم بلوی سے متعلق ہو یہ خود اس حدیث کو مخدوش اور معلول کردے گا، ممکن ہے کہ وہ حدیث منسوخ یا معلول ہو، لہٰذا اس پر عمل نہ کرنا اس وجہ سے نہیں کہ اس پر صحابہ نے عمل نہیں کیا؛ بلکہ اس وجہ سے کہ وہ حدیث معلول ہے یا منسوخ ہے۔ (۳) ممکن ہے کہ اس عالم کا اجتہاد اس سے زیادہ صحیح حدیث پر مبنی ہو یا یہ حدیث اس کے اجتہاد کے خلاف نہ ہو بلکہ موزوں ہو۔ (۴) دین کی بنیاد تو قرآن وسنت ہی ہے، لیکن اجماع اور قیاس بھی قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں، اس لیے یہ دونوں بھی قابل عمل ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند