عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 30492
جواب نمبر: 30492
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 450=346-4/1432 حدیث ”من کنت مولاہ فعليٌّ مولاہ“ یہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جسے ترمذی، احمد، نسائی اور ضیاء مقدسی نے اپنی ”مختارہ“ میں نقل کیا ہے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: یہ حدیث کثیر الطرق ہے جسے ابن عقدہ نے مستقل ایک کتاب میں جمع کیا ہے، اس کے بعض طرق صحیح ، بعض حسن اور بعض ضعیف ہیں، مسند احمد میں اس حدیث کے رجال ہیثمی کے نزدیک ثقہ ہیں، علامہ سیوطی نے اس حدیث کو متواتر قرار دیا ہے؛ لیکن اس میں محدثین کو نظر ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے ”میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کے دوست ہیں“ یہاں ولاء سے ولائے اسلام مراد ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ منقبت ان کے علم وفہم حسن سیرت اور صفاء باطن اور بااخلاق وقدامت فی الاسلام کے سبب فرمایا۔ بعض لوگ اس کا شانِ ورود ”غدیرخم“ کا واقعہ قرار دیتے ہیں تو گویا آپ کا مقصد یہ تھا کہ بمقتضائے بشریت حضرت علی سے ان کے بعض ساتھیوں کو جو دوستانہ شکر رنجی پیدا ہوگئی ہے وہ دور ہوجائے۔ مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ”علی مولا“ یا ”مولی علی“ کہنا مناسب نہیں کیونکہ عرف میں ”مولیٰ“ کا طلاق ”آقا“ پر ہوتا ہے اور حدیث بایں معنی وارد نہیں ہے۔ اور اگر شیعوں کے عقیدہ حلول کے مطابق علی مولیٰ کہا جائے تو یہ شرکیہ کلمہ ہے جس سے احتراز ضروری ہے۔ حدیث کی مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ فرمائیے ”فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی: ۶/۲۱۷، ط: دارالمعرفة، بیروت، لبنان)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند