عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 22247
جواب نمبر: 22247
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل):745=612-6/1431
محدثین کران نے ایسی حدیث کو موضوع قرار دیا، لہٰذا اس حدیث پر اعتماد درست نہیں کما في الموضوعات: لابن الجوزي روی یحیی بن سعید عن سعید أبي حبیب عن یزید الرقاشي عن أنس (رضي اللہ عنہ) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: دعاء الوالد لولدہ مثل دعاء النبي لأمتہ، قال أحمد بن حنبل ہذا حدیث باطل منکر وسعید لیس حدیثہ بشيء ، کتاب الوضوعات لابن الجوزي :۲۸۰، باب دعاء الوالد لولدہ۔
البتہ والد کی دعا اپنی اواد کے حق میں ایک دوسری حدیث ترمذی شریف میں وارد ہے کہ والد کی دعاء اپنی اولاد کے حق میں رد نہیں ہوتی: ففي الترمذي باب ما جاء في دعاء الوالدین عن أبي ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثلاث دعوات مستجابات لا شک فیہن: دعوة المظلوم ودعوة المسافر ودعوة الوالد علی ولدہ (ترذي شریف: ۲/۱۲) نیز ابوداوٴد کی روایت میں صرف لفظ دعوة الوالد وارد ہے جس کا مطلب محدثین بیان کرتے ہیں کہ دعوة الوالد لہ أو علیہ، یعنی والد کی دعاء اور بددعا دونوں اپنی اولاد کے حق میں قبول کی جاتی ہے۔
ہم لوگ آپ کی بیٹی کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ آپ کی بیٹی کی تمام تکالیف دور فرماکر ان کو حیات طیبہ نصیب فرمائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند