• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 22247

    عنوان: آ یاکوئی حدیث شریف اس مضمون و مفہوم کی ہے کہ والد کی دعاء اولاد کے حق میں ایسی ہے جیسے نبی کی دعا اپنی امت کے حق میں، اگر حوالہ دیں تو مہربانی۔ غیرمناسبت کی بیٹی کی شادی کی وجہ اور داماد وساس اس کو تکلیف دیتی ہیں جس کا مجھے زیادہ غم ہوتا ہے خاص دعا کا طالب ہوں کہ میری بیٹی عافیت وسکون سے رہے اور اس کے شوہر وساس ونندوں کے شر سے اللہ تعالیٰ اس کے محفوظ رکھیں۔

    سوال: ايا كوئى حديث شريف اس مضمون و مفهوم كى هيكه والد كى دعاء اولاد كى حق مين ايسى هى جيسى نبى كى دعاء ابنى امت كى حق مين اكر حواله دين تو مهربانى --- غير مناسبت كى جكه بيتى كى شادى كى وجه اور داماد و ساس اسكو تكليف ديتى هين جسكا مجهى زياده غم هوتا هى خاص دعاء كا طالب هون كى ميرى بيتى عافيت و سكون سى رهى اور اسكى شوهر و ساس و نندون كى شر سى الله تعالى اسكو محفوظ ركهين مالك كرى اسكى دشمن هلاك هو جائيى

    جواب نمبر: 22247

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل):745=612-6/1431

    محدثین کران نے ایسی حدیث کو موضوع قرار دیا، لہٰذا اس حدیث پر اعتماد درست نہیں کما في الموضوعات: لابن الجوزي روی یحیی بن سعید عن سعید أبي حبیب عن یزید الرقاشي عن أنس (رضي اللہ عنہ) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: دعاء الوالد لولدہ مثل دعاء النبي لأمتہ، قال أحمد بن حنبل ہذا حدیث باطل منکر وسعید لیس حدیثہ بشيء ، کتاب الوضوعات لابن الجوزي :۲۸۰، باب دعاء الوالد لولدہ۔
     البتہ والد کی دعا اپنی اواد کے حق میں ایک دوسری حدیث ترمذی شریف میں وارد ہے کہ والد کی دعاء اپنی اولاد کے حق میں رد نہیں ہوتی: ففي الترمذي باب ما جاء في دعاء الوالدین عن أبي ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثلاث دعوات مستجابات لا شک فیہن: دعوة المظلوم ودعوة المسافر ودعوة الوالد علی ولدہ (ترذي شریف: ۲/۱۲) نیز ابوداوٴد کی روایت میں صرف لفظ دعوة الوالد وارد ہے جس کا مطلب محدثین بیان کرتے ہیں کہ دعوة الوالد لہ أو علیہ، یعنی والد کی دعاء اور بددعا دونوں اپنی اولاد کے حق میں قبول کی جاتی ہے۔
    ہم لوگ آپ کی بیٹی کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ آپ کی بیٹی کی تمام تکالیف دور فرماکر ان کو حیات طیبہ نصیب فرمائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند