عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 170781
جواب نمبر: 170781
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:862-726/sd=11/1440
مشہور حدیث ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا لیس بالکاذب من أصلح بین الناس، فقال خیرا أو نما خیرا، وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان معاملات کو سنوارتا ہے، پس وہ کوئی بھلی بات کہتا ہے یا وہ کوئی بھلی بات منسوب کرتا ہے، اس مضمون کی حدیث الفاظ کے فرق کے ساتھ دوسری سند سے بھی وارد ہوئی ہیں، سب کا حاصل یہ ہے کہ باہم مصالحت کی دین اسلام میں اتنی اہمیت ہے کہ اس کے لیے اگر بظاہر جھوٹ بولنے کی ضرورت پڑے، تو شرعا اس کی بھی گنجائش ہے، لیکن فقہاء کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ صلح کے مقصد سے صریح جھوٹ بولنا جائز ہے یا صرف توریہ کی گنجائش ہے؟ تفصیلی بحث ترمذی شریف کی شرح تحفة الالمعی جلد :۵، صفحہ ۲۸۰تا ۲۸۵موجود ہے، ملاحظہ فرمالیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند