• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 166500

    عنوان: "رکعتان خفیفتان" والی حدیث كا محمل كیا ہے؟

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ "رکعتان خفیفتان" والی حدیث کیا ہے ؟ یعنی حنبلی لوگ جس کو دلیل بناکر جمعہ کے خطبے کے دوران بھی دو رکتیں پڑھ لیتے ہیں کیونکہ ہمارے بعض حضرات سعودیہ میں لوگوں کو ایسا کرتے ہوے دیکھتے ہیں تو وہ سوال کرتے ہیں کہ اس کی کیا حقیقت ہے ؟ کیا واقعی احادیث مبارکہ میں اس نماز کا ذکر ہے ؟ آپ سے درخواست ہے کہ بالتفصیل اس کی وضاحت فرما دیں کہ اصل حکم کیا ہے وہ بھی بتلادیں؟ کیونکہ ان کو دیکھا دیکھی ہمارے لوگ بھی کبھی کبھی ایسا کرلیتے ہیں۔

    جواب نمبر: 166500

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 260-238/H=3/1440

    دورانِ خطبہ اگر کوئی شخص مسجد میں آئے تو اس کے لئے شوافع اور حنابلہ کے نزدیک دو رکعتیں پڑھنے کی گنجائش ہے، ان کا مستدل صحیحین کی روایت ”إذا جاء أحدکم والإمام یخطب أو قد خرج فلیصلّ رکعتین“، ہے۔ لیکن احناف کے نزدیک دوران خطبہ کسی قسم کی گفتگو کرنا، یا نماز پڑھنا بالکل جائز نہیں، احناف کے دلائل میں سے بعض ذکر کئے جاتے ہیں۔

    (۱) اللہ تعالی کا ارشاد ہے وإذا قریٴ القرآن فاستمعوا لہ وأنصتوا (الاعراف: ۲۰۳) کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے توخاموش رہو، اور غور سے سنو، بلکہ شوافع تو اس آیت کو خطبہٴ جمعہ کے ساتھ ہی مخصوص مانتے ہیں۔ (درس ترمذی: ۲/ ۲۸۴)۔

    (۲) ترمذی شریف کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ جمعہ کے دوران نہی عن المنکر کو بھی منع فرمایا جب کہ وہ واجب ہے، تو جب واجب کام نہیں کیا جاسکتا ہے، تو نوافل کیسے پڑھ سکتے ہیں۔ (ترمذی شریف: ۱/۱۱۴، ط: اتحاد) ۔

    (۳) معجم طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول إذا دخل أحدکم المسجد والإمام علی المنبر فلا صلاة ولا کلام حتی یفرغ الإمام ۔کہ جب امام منبر پر ہو اس وقت کوئی کلام اور کوئی نماز جائز نہیں۔ نیز جمہور صحابہ اور تابعین بلکہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی دوران خطبہ گفتگو کی ممانعت ثابت ہے، جیسا کہ امام نووی نے مسلم شریف کی شرح جلد: ۱/۲۸۷، میں ذکر کیا ہے۔ اور احناف کے دلائل موٴید بالقرآن اور موٴید بالاصول الکلی بھی ہیں، وہ اصول یہ ہے کہ جب کسی ایک مسئلہ میں دو طرح کی حدیثیں ہوں، ایک سے کسی فعل کا جواز ثابت ہوتا ہو، اور دوسرے سے عدم جواز، تو عدم جواز کو ثابت کرنے والی حدیث کو ترجیح دی جاتی ہے، إلا یہ کہ کوئی قوی دلیل صارف موجود ہو۔ مذکورہ دلائل کی روشنی میں معلوم ہوا کہ احناف کا مسلک اس سلسلے میں راجح ہے، لہٰذا احناف کو اسی پر عمل کرنا چاہئے، محض دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے مسلک کے خلاف عمل نہیں کرنا چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند