• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 166337

    عنوان: ایك طرف جذامی سے بھاگنے كا حكم ہے اور دوسری طرف بیماری كو متعدی نہ سمجھنے كا؟ اس كو ذرا تفصیل سے سمجھائیں

    سوال: کچھ بیماریاں ایک فرد سے دوسرے افراد تک مختلف ذرائع سے پھیلتی ہیں۔ ان بیماریوں کو متعدی بیماریاں کہا جاتا ہے ۔ مثلاً، ڈینگی، ملیریا، تپِ دق، نمونیا، کالی کھانسی ، خسرہ ، طاعون ،وغیرہ۔ متعدی بیماریاں ہی وباؤں کا سبب بنتی ہیں۔ پرسوں ایک دوست نے بذریعہ موبائل درج ذیل حدیث مبارک ارسال کی: " سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا: کوئی بیماری دوسرے تک متعدی نہیں ہوتی۔ ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو اونٹ کے ہونٹ یا دم پر خارش کا پہلا سوراخ نمودار ہوتا ہے ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے کا پورا بڑا اونٹ خارش زدہ ہو جاتا ہے (اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیماری متعدی ہے )؟ یہ سن کر آپ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: سب سے پہلے اونٹ کو کس نے بیماری لگائی تھی، نہ کوئی بیماری متعدی ہے ، نہ الو کی نحوست ہے اور نہ کوئی صفر کی حقیقت ہے ، اللہ تعالی نے ہر نفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی، موت اور مصیبت اور رزق کو لکھ دیا ہے ۔" حدث نمبر 7755 ، مسندِاحمد اس حدیث مبارک میں اس بات کی نفی کی گئی ہے کہ کوئی بیماری متعدی ہوسکتی ہے ، جبکہ مشاہدہ ، تجربہ ، اور علمِ طب کے مطابق بہت ساری بیماریاں متعدی ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ۔ میں اس تضاد کو سمجھنے سے قاصر ہوں ، اور آپ سے رہنمائی کیلئے ملتمس ہوں۔

    جواب نمبر: 166337

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 279-216/B=3/1440

    زمانہ جاہلیت میں بعض بیماریوں میں لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ جب کوئی تندرست آدمی کسی بیمار شخص کے پاس جاتا ہے، تو اس کی بیماری تندرست آدمی میں خود بخود منتقل ہو جاتی ہے اور اللہ تعالی کی تقدیر اور مشیت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا، تو آپ علیہ السلام نے ”لاعدوی ، لایعدی شیء شیئا “ جیسی احادیث میں اسی باطل عقیدے کی تردید فرمائی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی بھی بیماری اللہ تعالی کی مشیت کے بغیر فی نفسہمتعدی نہیں ہوتی؛ بلکہ جب اللہ تعالی اس میں متعدی ہونے کی تاثیر ڈال دیتے ہیں اس وقت وہ دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”فر من المجذوم فرارک من الأسد“ (مجذوم سے اس طرح بھاگو جیسے تم شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہو) ”لا یورد ممرض علی مصح“ (بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ لایا جائے ) جیسی حدیثوں میں متعدی سمجھی جانے والی بیماریوں میں مبتلا لوگوں اور جانوروں سے احتیاط کرنے کا حکم دیا؛ تاکہ اگر کوئی اختلاط کے بعد بمشیت خداوندی بیمار ہوگیا، تو اس کا اعتقاد خراب نہ ہو۔ پس معلوم ہوا کہ پیش کردہ روایت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی بیماری اللہ کی تقدیر اور مشیت کے بغیر ایک دوسرے میں متعدی نہیں ہوتی ہے؛ لہٰذا مشاہدے اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند