• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 166009

    عنوان: سجدے میں دونوں رانوں اور ایڑیوں کو باہم ملاکر رکھنا سنت ہے

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے سجدہ کی حالت میں پاؤں ملنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ احادیث کی روشنی میں وضاحت فرما دیں ۔ میں سعودی میں ہوتاہوں ،یہاں میں اکثر امام حضرات کو پاؤں ملاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 166009

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:116-191/N=4/1440

     سجدہ کی حالت میں دونوں رانیں باہم ملالینا سنت ہے ، علم الفقہ میں نماز کی سنتوں کے بیان میں ہے: سجدے کی حالت میں دونوں رانوں کا ملا ہوا رکھنا (علم الفقہ، مکمل، ص: ۲۱۳، مطبوعہ: کراچی) اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابوہریرہسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو کتے کی طرح اپنے ہاتھ نہ بچھائے اور اپنی دونوں رانیں باہم ملالے (صحیح ابن حبان) ۔ اور سجدہ میں پیروں کی ایڑیاں بھی باہم ملانا سنت ہے جیسا کہ صحیح ابن حبان اور شرح مشکل الآثار وغیرہ میں حضرت عائشہ صدیقہسے نقل کیا گیا ہے اور یہ روایت مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اور علامہ انورشاہ کشمیرینے فرمایا: اکثر لوگ اس سنت سے غافل ہیں (العرف الشذی) ۔

    عن أبي ھریرةأن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: إذا سجد أحدکم فلا یفترش افتراش الکلب ولیضم فخذیہ (صحیح ابن حبان، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ذکر الأمر بضم الفخذین عند السجود للمصلي، ۵: ۲۴۴، ۲۴۵، رقم الحدیث: ۱۹۱۷، ط: موٴسسة الرسالة، بیروت) ، قالت عائشة: فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکان معي علی فراشي فوجدتہ ساجداً راصاً عقبیہ الخ (المصدر السابق، ص: ۳۷۸، رقم الحدیث: ۱۹۳۰) ، قالت عائشة: فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلة وکان معي علی فراشي فوجدتہ ساجداً راصاً عقبیہ الخ (شرح مشکل الآثار، باب بیان مشکل ما روي عنہ علیہ السلام في الشیطان أنہ یجري من ابن آدم مجری الدم الخ، ۱: ۱۰۴، رقم الحدیث: ۱۱۱، ط: موٴسسة الرسالة، بیروت) ، إسنادہ صحیح علی شرط مسلم؛ فإن عمارة بن غزیة لم یرو لہ البخاري، وإنما استشھد بہ، ورواہ ابن خزیمة ۶۵۴والحاکم ۱: ۲۲۸، ۲۲۹والبیھقي ۲: ۱۱۶من طریق سعید بن أبي مریم بھذا الإسناد (ھامش شرح مشکل الآثار) ، وفي صحیح ابن حبان عن عائشةالرص بین العقبین في السجدة أي: ضمھما، وأکثر الناس عن ھذا غافلون (العرف الشذي، کتاب الصلاة، باب ما جاء في التسبیح في الرکوع والسجود، ۱: ۲۶۹، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت) ، قولہ: ”ویسن إلصاق کعبیہ“: قال السید أبو السعود: وکذا في السجود أیضاً (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ۲: ۱۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند