• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 163098

    عنوان: جنت میں جانے والے دو قسم كے لوگوں كے سلسلے میں ایك حدیث كی تحقیق

    سوال: سوال: محترمی عالی جناب ایک عالم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جب سارے جنتیوں کا فیصلہ ہوجائیگا تب اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش ماریگی اور الگ الگ طریقوں سے مسلمان جنت میں جائیں گے ۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کی دو قسم کے مسلمان ایسے بھی ہوں گے جو جنت میں جائیں گے ، میں درج ذیل باتوں میں اگر صداقت ہے تو مفصل حدیث کی روشنی میں رہنمائی چاہتا ہوں۔ ۱- میدان حشر میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے لئے جہنم واجب ہوگی تو سیدھا دوڑتے ہوئے جہنم کی طرف جائیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ ایسا کیوں تو وہ کہیں گے کہ اے اللہ میں نے دنیا میں تیری ایک نہ سنی اب یہاں ایک یہ بات تو سننا چاہوں گا۔ اللہ کی رحمت جوش مارے گی اور اس شخص کے لئے جنت کا فیصلہ ہوگا۔ ۲. کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے لئے جہنم واجب ہوگی تو اور وہ جہنم کی طرف جاتے ہوئے بار بار پلٹ کر دیکھیں گے ، پوچھا جائیگا کہ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو وہ جہنمی کہے گا اے اللہ تو بڑا غفور الرحیم ہے ۔ اللہ کی رحمت جوش مارے گی اور اس شخص کے لئے جنت کا فیصلہ ہوگا۔ برائے کرم رہنمائی کریں۔

    جواب نمبر: 163098

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1264-125T/H=12/1439

    امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے حضرت سعد بن بلال رضی اللہ عنہ سے اس طرح روایت نقل کی ہے: وقال سعد بن بلال: یومر یوم القیامة بإخراج رجلین من النار، فیقول اللہ تبارک وتعالی ذلک بما قدّمت أیدیکما وما أنا بظلام للعبید ، ویأمر بردّہما إلی النار، فیعدو أحدہما حتی یفتحمہا، ویتلکأ الآخر، فیوٴمر بردہما، ویسألہما عن فعلہما، فیقول الذي عدا إلی النار: قد حذّرت من وبال المعصیة فلم أکن لاتعرّض لسخطک ثانیة، ویقول الذي یتلکأ حسن ظنّي بک کان یشعرني أن لا تردّني إلیہما ما أخرجتني منہا، فیأمر بہما إلی الجنة (إحیاء علوم الدین للإمام الغزالي: ۴/ ۵۳۰، ط: کریاطہ فوتر سماراغ)

    حضرت سعد بن بلال فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن دو شخصوں کو جہنم سے نکالنے کا حکم ہوگا، پھر اللہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرمائیں گے: کہ تمھارا جہنم میں داخل ہونا تمھاری بداعمالی کی وجہ سے تھا اور میں تو کسی بندے پر ادنی ظلم بھی نہیں کرتا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوبارہ ان کو جہنم میں جانے کا حکم دے دیں گے، تو ان دونوں میں سے ایک کا حال تو یہ ہوگاکہ وہ تیزی سے جہنم کی طرف دوڑکر اس میں گھس جائے گا، اور دوسرا شخص واپس جانے میں ہچکچائے گا، پھر اللہ تعالیٰ دونوں کو واپس بلاکر ان سے ان کے فعل سے متعلق دریافت کریں گے، تو ان میں سے جو شخص جہنم کی طرف تیزی سے بھاگا تھا، وہ کہے گا کہ میں نے آپ کی نافرمانی کے خوف سے ایسا کیا کہ کہیں دوبارہ آپ کی ناراضگی کا مستحق نہ ہوجاوٴں، اور دوسرا شخص بولے گا کہ اے ا للہ میں نے تو آب کے ساتھ اچھا گمان رکھتے ہوئے ایسا کیا کہ آپ کی ذات ایسی نہیں ہے کہ جہنم سے نکالنے کے بعد دوبارہ اس میں واپس بھیج دے، پھر اللہ تعالیٰ تو دونوں کو ہی جنت میں بھیج دیں گے۔

    الملحوظة: اسم الراوی في إحیاء العلوم سعد بن بلالٍ کما رسمت، ولکن لا یوجد في کتب التاریخ بہذا الاسم أي راوٍ، بل توجد ہذہ الروایة باسم بلال بن سعد في کتب آخر، وبلال تابعیّ قاص أبوہ صحابی ولقي النبي صلی اللہ علیہ وسلم․ یعنی احیاء العلوم میں راوی سعد ابن بلال ہیں جب حلیة الاولیاء میں بلال ابن سعد ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے نیز یہ روایت متداول کتب احادیث میں نہیں مل سکی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند