• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 160674

    عنوان: اول جیش من امتی یغضون مدینة قیصر

    سوال: مسئلہ اول جیش من امتی یغضون مدینة قیصر مغفور للہم قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے پہلے حملے میں یزید بن معاویہ کی مغفرت کس طرح شامل نہیں؟ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اطہر سے نکلا ہوا ہر لفظ برحق ہے ؟

    جواب نمبر: 160674

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:937-153T/sd=10/1439

     حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ لکھتے ہیں :قسطنطنیہ پر پہلی بار حملہ آور ہونے والا لشکر کون سا تھا؟ اس بارے میں اقوال مختلف ہیں، ایک قول یہ ہے کہ حضرت معاویہنے سفیان بن عوفکی سرکردگی میں ایک لشکر قسطنطنیہ روانہ کیا تھا جس میں حضرت ابن عباس، ابن زبیراور ابو ایوب الانصاریموجود تھے اور اسی میں حضرت ابو ایوب کی وفات ہوئی۔ علامہ عینینے اس قول کو زیادہ راجح قرار دیا ہے ۔ قلت الاظھر ان ھوٴلاء السادات من الصحابة کانوا مع سفیان ھذا و لم یکونوا مع یزید بن معاویة لانہ لم یکن اھلا ان یکون ھوٴلاء السادات فی خدمتہ یہ زیادہ ظاہر ہے کہ یہ اکابر صحابہ سفیان کے ساتھ ہوں گے یزید بن معاویہ کے ساتھ نہیں؛ کیونکہ وہ اس بات کا اہل نہ تھا کہ یہ حضرات صحابہاس کی خدمت میں رہیں۔ (عمدة القاری ص۱۹۸، ۱۹۹ج۱۴ادارة الطباعة المنیرة، وکذا فی طبع دار الفکر)لیکن تاریخی طور پر یہ قول زیادہ مشہور ہے کہ قسطنطنیہ پر مسلمانوں کا پہلا حملہ یزید بن معاویہ کی سرکردگی میں ہوا ہے ۔ اس سے بعض علماء نے یزید بن معاویہ کی فضیلت اخذ کی ہے ؛ لیکن حافظ ابن حجر، علامہ بدر الدین عینی اور دوسرے علماء محققین نے اس کی تردید کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ حدیث مذکور میں ایک عام حکم دیا گیا ہے کسی فرد کی تخصیص نہیں، لہٰذا یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے اسباب کی بناء پر اس عام حکم سے خارج ہو۔ (فتح الباری ج۶ص۷۸) گویا یہ ایسا ہی ہے جیسے حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے من قال لا الہ الا اللہ دخل الجنة جو شخص لا الہ الا اللہ کہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک عام حکم ہے اور لا الہ الا اللہ کہنے کا تقاضا تو یہی ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو، لیکن اگر دوسرے گناہوں کا ارتکاب کرے یا بعد میں مرتد ہو جائے تو وہ اس عام حکم سے خارج ہو جائے گا۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث کا اصل مقصد قسطنطنیہ کے جہاد کی ترغیب دینا اور اس جہاد میں شرکت کی فضیلت کا اظہار ہے ، جس کو یہ فضیلت حاصل ہوتی ہے اس کا انکار کرنا بھی غلط ہے ۔لیکن اس فضیلت کی بناء پر اس کے دوسرے ناجائز افعال کا جواز تلاش نہیں کیا جاسکتا، یزید بن معاویہ نے اگر اس جہاد میں شرکت یا اس کی سربراہی کی تو بلاشبہ اس کا یہ عمل تیک اور باعث اجر ہے ، لیکن اس نیک عمل سے ان ناجائز افعال کا جواز ثابت نہیں کیا جاسکتا جو اس نے اپنے عہد حکومت میں انجام دئیے ہوں، چنانچہ اہل سنت و الجماعة کا مسلک اس کے بارے میں یہی ہے کہ وہ مسلمان تھا اسی لئے محقق علماء نے اس پر لعنت کرنے کو جائز قرار نہیں دیا اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ قیامت میں اس کی بخشش نہیں ہوگی۔ اس نے اپنے عہد حکومت میں بلاشبہ بعض ناجائز افعال کئے ، ان افعال کو ناجائز قرار دیا جائے گا۔ اس کے بعد معاملہ اللہ کے ساتھ ہے وہ چاہے تو مغفرت کر دے اور چاہے تو سزا دے ، ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ جس سے دنیا میں اس کے مغفور لہ یا معذب ہونے کا فیصلہ کر سکیں۔ یزید کے بارے میں اہل سنت کے مسلک کی بہترین ترجمانی علامہ ابن تیمیہنے ان الفاط میں کی ہے الناس کی یزید طرفان و وسط قوم یعتقدون انہ من الصحابة او من الخلفاء الراشدین المھدیین او من الانبیاء و ھذا کلہ باطل وقوم یعتقدون انہ کافر منافق فی الباطن ........ و کلا القولین باطل یعلم بطلانہ کل عاقل فان الرجل ملک من ملوک المسلمین و خلیفة من الخلفاء الملوک لا ھذا و لا ھذا۔ (منھاج السنة علامہ ابن تیمیہج۲ص۳۲۱، طبع مکتبة الریاض الحدیثة ریاض) اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یزید کو خلفائے راشدین مہدیین میں سے سمجھنا بھی غلط ہے اور اسے کافر منافق قرار دینا بھی صحیح نہیں۔ اہل حق کا مسلک اس افراط و تفریط کے درمیان ہے ، اس اعتدال پر قائم رہنا چاہئے اور اس قسم کی فضول بحثوں میں نزاع و جدال میں اپنی عمر کے اوقات صرف کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔( فتاوی عثمانی : ۱۹۴/۱)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند