• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 159018

    عنوان: ایک مشت ڈارھی رکھنے کے دلائل

    سوال: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا داڑھی کو ایک مٹھی کے بعد کاٹنے والی احادیث کا کیا درجہ ہے ظاہریہ کا اور ابن تیمیہ کا اور انکے تلامذہ کا کیا نظریہ تھا اس پر

    جواب نمبر: 159018

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:641-115T/B=9/1439

    صحاح ستہ میں یہ حدیث موجود ہے انہکوا الشوارب واعفوا اللحی اور ایک روایت میں ہے خالفوا المشرکین احفوا الشوارب وأوفوا اللحی اور ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں جزُّوا الشوارب وارخوا اللحی وخالفوا المجوس، یہ سب روایتیں صحاح ستہ میں ہیں، چونکہ امر وجوب کے لیے اس لیے موچھوں کا باریک کرنا اور ڈاڑھی کا بڑھانا واجب ہے، علامہ ابن حزم ظاہری نے دونوں کو فرض لکھا ہے، ائمہ اربعہ میں سے سب کے نزدیک ڈاڑھی کا منڈانا حرام ہے۔ فقہ حنبلی میں ہے یجب إعفاء اللحیة ویحرم حلقہا وإعقاء اللحیة بأن لا یأخذ منہا شیئًا یعنی حنبلی مذہب میں یہ ہے کہ ڈاڑھی میں سے کچھ حصہ بھی نہ کاٹے جس قدر لمبی ہوجائے ہونے دے۔ ہذا کلہ فی الإقناع وشرحہ کشف القناع۔ علامہ ابن تیمیہ بھی حنبلی تھے اس لیے ممکن ہے ان کے یہاں بھی مطلقاً اعفاء کا حکم ہو۔ ویسے صراحة ہم نے ان کا کوئی قول نہیں دیکھا۔

    بقیہ ائمہ کرام اعفاء کو یعنی ڈاڑھی بڑھانے کو ایک مشت تک کے قائل ہیں، چونکہ مطلقاً بڑھانا یہ حدیث خالفوا المشرکین اور خالفوا المجوس کے کے خلاف ہے ہمیں دوسری طرف داڑھی رکھنے میں اسکا بھی پابند کیا گیا ہے کہ ہماری ڈاڑھی مشرکین ومجوس کے مانند نہ ہو یعنی سادھووٴں ار سکھوں کی طرح نہ ہو اس لیے وہ دوسری احادیث وآثار جو حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ ان حضرات نے ڈاڑھی کی لمبائی ایک قبضہ تک رکھی اس کے بعد کاٹ دی تاکہ سکھوں اور سادھووٴں کے ساتھ ہماری مشابہت نہ ہو، کیونکہ حدیث بالا کے مطابق ان کی مشابہت سے بچنا بھی ہمارے لیے واجب ہے، ان تینوں جلیل القدر صحابہٴ کرام کا عمل یہ اگرچہ حدیث موقوف ہے لیکن خالفوا المشرکین اور خالفوا المجوس کی طرف نظر رکھتے ہوئے ایک قبضہ تک ڈاڑھی رکھنا یہ حدیث مرفوع سے ہی ثابت مانا جائے گا۔ تفصیل یدکھنا ہو تو بذل المجہود فی حل ابی داوٴد کا مطالعہ کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند