عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 158500
جواب نمبر: 158500
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 499-439/N=5/1439
دوسرے کی زمین ہڑپنے پربعض احادیث میں یہ وعید آئی ہے کہ زمین ہڑپنے والے کو قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ زمین ہڑپنے والے کو قیامت کے دن اس کا مکلف کیا جائے گا کہ وہ ہڑپ کی ہوئی زمین کی مٹی سات زمینوں تک کھود کر میدان محشر میں لائے، اس کے بعد سب کا فیصلہ ہونے تک اس کے گلے کا طوق بنادیا جائے گا(مشکوة شریف، ص: ۲۵۵، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)۔اور شراح حدیث نے فرمایا: ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو پہلی قسم کا عذاب ہو اور بعض کو دوسری قسم کا۔
عن سعید بن زید، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من أخذ شبراً من الأرض ظلماً فإنہ یطوقہ یوم القیامة من سبع أرضین، متفق علیہ ((مشکاة المصابیح، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریة، الفصل الأول، ص ۲۵۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، عن سالم عن أبیہ قال: قال رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم: ”من أخذ من الأرض شیئاً بغیر حقہ خسف بہ یوم القیامة إلی سبع أرضین“ رواہ البخاري، وعن یعلی بن مرةقال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”من أخذ أرضاً بغیر حقھا کلف أن یحمل ترابھا المحشر“ رواہ أحمد، وعنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: أیما رجل ظلم شبراً من الأرض کلفہ اللہ عزوجل أن یحفرہ حتی یبلغ سبع أرضین ثم یطوقہ حتی یقضي بین الناس“ رواہ أحمد (المصدر السابق، الفصل الثالث، ص: ۲۵۷)، لعلہ یعذب بعض بالخسف و آخرون بالتطویق (لمعات التنقیح مع المشکاة)۔
اور چوری کرنا بھی شریعت میں حرام ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا: چوری کرنے والا جب چوری کرتا ہے تو وہ ایمان والا نہیں رہتا، یعنی: اس کا ایمان کامل نہیں رہتا۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا کہ چوری کے وقت چور کا ایمان اس سے جدا ہوکر اس کے اوپر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے اور جب وہ چوری سے فارغ ہوجاتا ہے تو واپس آجاتا ہے۔اور حضرت موسی علیہ السلام کو جو واضح نو احکام دیے گئے تھے، ان میں ایک حکم : چوری نہ کرنا بھی تھا (مشکوة شریف، ص: ۱۷، ۱۸، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)؛البتہ یہ واضح ہو کہ دلیل شرعی کے بغیر کسی پر چوری یا کسی بھی گناہ وحق تلفی کا الزام لگانا جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند