عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 158209
جواب نمبر: 158209
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:427-377/SD=5/1439
اگر مذکورہ شخص نے موضوع حدیث استاد سے سن کر دوسروں سے نقل کردی،اُس کو پہلے سے حدیث کے موضوع ہونے کا علم نہیں تھا، تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات منسوب کرنے کی وعید میں داخل نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ اُس حدیث میں یہ شرط ہے کہ انسان جان بوجھ کر غلط بات منسوب کرے ،یعنی اُس کو معلوم ہو کہ حدیث موضوع ہے ، اس کے باوجود وہ حدیث کے نام سے دوسروں سے بیان کرے ،حدیث کا معاملہ نازک ہوتا ہے ، پوری تحقیق کے بعد ہی حدیث آگے نقل کرنی چاہیے ، بالخصوص اگر کوئی استاد ہو،تو اُس کو شاگردوں کے سامنے اور بھی احتیاط ضروری ہے ، جن لوگوں تک موضوع حدیث نقل کی گئی ہے ، حتی الامکان اُن تک صحیح بات بتانے کی کوشش جاری رکھی جائے اور اللہ سے توبہ استغفار بھی کیا جائے ۔ قال الملا علی القاری : وفیہ إشارة إلی أن من نقل حدیثا وعلم کذبہ یکون مستحقا للنار إلا أن یتوب، لا من نقل عن راو عنہ علیہ السلام، أو رأی فی کتاب ولم یعلم کذبہ.( مرقاة المفاتیح : ۲۸۱/۱، کتاب العلم ، ط: دار الفکر، بیروت، لبنان)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند