عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 156400
جواب نمبر: 156400
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:251-38T/sn=4/1439
(۱،۲) یہ دونوں حدیثیں ان الفاظ کے ساتھ ثابت نہیں ہیں، متعدد محدثین نے انھیں موضوعات میں شمار کیا ہے، چناں چہ کنز العمال میں ثانی الذکر حدیث ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں: وفیہ نوح بن أبي مریم وأوردہ ابن الجوزي في الموضوعات الصغری رقم: ۱۵۰، حدیث سور الموٴمن شفاء قال العراقي: ہکذا اشتہر علی الألسنة ولا أصل لہ بہذا اللفظ وذکر کذلک برقم: ۱۴۴، ریق الموٴمن شفاء، لیس لہ أصل مرفوع إلخ (کنز العمال: ۳/۱۱۵، رقم: ۵۷۴۸، ط: موٴسسة الرسالة)؛ البتہ کشف الخفاء وغیرہ میں ہے کہ حدیث کے الفاظ اگرچہ ثابت نہیں ہیں؛ لیکن معنی صحیح ہے اور بخاری شریف کی ایک حدیث سے اس پر استدلال کیا؛ لہٰذا اس حدیث کے مفہوم پر عمل کرنے کی گنجائش ہوگی یعنی شفا کی نیت سے کسی مومن کے پس خوردہ کا استعمال جائز ہوگا۔ ”ریق الموٴمن شفاء“ لیس بحدیث؛ ولکن معناہ صحیح، ففي الصحیحین کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا اشتکی الإنسان الشيء إلیہ أو کانت بہ فرحة أو جرح قال بإصبعہ -سبابتہ بالأرض- ثم رفعہا لہ وقال باسم اللہ تربة أرضنا، بریقة بعضنا، یشفي لسقیمنا بإذن ربنا إلخ (کشف الخفاء، ۱/۴۹۸، رقم: ۱۴۰۵، ط: المکتبة العصریّة) نیز دیکھیں: اللآلی المنثورة: (ص: ۳۹۷)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند