عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 154677
جواب نمبر: 154677
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1423-1437/M=2/1439
(۱) حدیث شریف میں تغییر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی استطاعت کے بقدر منکر کو روکے اور یہ روکنا کبھی فعل کے ذریعے ہوتا ہے مثلاً کوئی با اثر شخص گانے بجانے کے آلات کو توڑدے اور کبھی قول کے ذریعے کہ آدمی ہاتھ سے تو منکر کو روک نہ سکتا ہو لیکن اس کے سلسلے میں وعید وسزاء بیان کرکے روک دے، اور کبھی دل سے ناپسند کرنے سے بھی ہوتا ہے جب کہ مذکورہ بالا دونوں چیزوں پر قدرت نہ ہو، اور کسی منکر کو روک دینا ہی اس کی ضد کا حکم دینا ہے اور منکر کی ضد کبھی واجب ہوتی ہے اور کبھی مندوب ومباح، ان میں سے ہرایک معروف کے زمرے میں داخل ہے اس لیے تغیر کا صرف یہ مطلب سمجھنا کہ منکر کو بدل کر معروف کردینے کے بعد ہی اس کا مفہوم پورا ہوگا غلط ہے: إذ النھی عن الشيء أمر بضدہ وضد المہي إما واجب أو مندوب أو مباح والکل معروف (مرقاة المفاتیح: ۱/ ۳۳۹، مکتبہ امدادیہ پاکستان)
حرمت خمر کا واقعہ جس انداز سے آپ نے لکھا ہے وہ ہماری نظر سے نہیں گزرا، باقی حرمت خمر کا حکم تدریجاً ہی نازل ہوا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیں (معارف القرآن: ۲/ ۴۲۳/ ۴۲۴، ط: نعیمیہ دیوبند)
(۲) منکر سے روکنے یا معروف کا حکم کرنے کے لیے اولا یہ ضروری ہے کہ دونوں کے مراتب کا علم ہو چنانچہ اگر منکر مشہور ہو جیسے حرمتِ زنا، حرمتِ خمر، یا معروف واجب یا فرض درجے کا ہو جسے ہرمسلمان جانتا ہو مثلاً نماز، روزہ، زکا، حج وغیرہ تو دو شرطوں کے ساتھ ان میں ہرایک مرد وعورت پر ضروری ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے بقدر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بجالائے۔(۱) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے فتنہ کا خوف نہ ہو یعنی موقع ومحل اور مقتضیات کا مکمل لحاظ کرنے ضروری ہے۔ (۲) مخاطب سے امید ہو کہ صحیح بات قبول کرے گا، اگر قبول کی امید نہ ہو تو شعائرہ اسلام کے اظہارکے لیے امر بالمعروف یا نہی عن المنکر مستحب ہوگا، اور اگر وہ معروف واجب یا فرض درجے کا نہ ہو اسی طرح منکر حرام درجے کا نہ ہو تو وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی فرض وواجب نہیں ہوگا بلکہ مستحب ومندوب رہے گا، نیز اگر عامة الناس کو معروف ومنکر کے مراتب کا علم نہ ہو بلکہ صرف خاص طبقے (علماء) کو ہو تو عوام الناس کو روکنے ٹوکنے کا حق نہ ہوگا اور نہ ان کے لیے یہ جائز ہوگا بلکہ اسی خاص طبقے کو یہ حق حاصل ہوگا اور امر بالمعروف ونہی عن المنرک میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ حد درجہ نرم گوئی، حکمت اور حسن تدبیر سے کام لینا چاہیے تاکہ مخاطب کا دل قبولیت کے لیے نرم ہوجائے: وشرطہما أن لا یوٴدي إلی الفتنة کما علم من الحدیث، وأن یظن قبولہ فإن ظنّ أن لا یقبل فیستحسن إظہارا لشعائر الإسلام، ولفظ ”من“ لعمومہ یشمل کل أحد رجلاً أو امرأة عبدًا أو أمة فاسقًا أو صبیًا ممیزًا ․․․ ثم أنہ إنما یأمر وینہی من کان عالمًا بما یأمر بہ وینہی عنہ وذلک یختلف باختلاف الشيء (مرقاة المفاتیح: ۱/ ۳۲۹، ط: امدادیہ ملتان پاکستان) مستفاد از معارف القرآن: ۷/ ۴۲۰تا ۴۲۲، ط: نعیمیہ دیوبند۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند