عنوان: ایك حدیث كے بارے میں...
سوال: سوال: # 1023 ، سنن ابو داو حدیث۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی تو سلام پھیر دیا حالانکہ ایک رکعت نماز باقی رہ گئی تھی، ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: آپ نماز میں ایک رکعت بھول گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے ، مسجد کے اندر آئے اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کی اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی، میں نے لوگوں کو اس کی خبر دی تو لوگوں نے مجھ سے پوچھا: کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، البتہ اگر میں دیکھوں ( تو پہچان لوں گا ) ، پھر وہی شخص میرے سامنے سے گزرا تو میں نے کہا: یہی وہ شخص تھا، لوگوں نے کہا: یہ طلحہ بن عبیداللہ ہیں۔ صحیح بخاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ذوالیدین کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کی رکعتیں کم ہو گئی ہیں؟ ( کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر صرف دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا تھا )،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا جی ہاں، اس نے صحیح کہا ہے ، تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت اور پڑھائیں پھر دو سجدے کئے ۔ سعد نے بیان کیا کہ عروہ بن زبیر کو میں نے دیکھا کہ آپ نے مغرب کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور باتیں بھی کیں۔ پھر باقی ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا۔ کیا یہ آحادیث سورہ بقرہ کی آیت 238 حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی # وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ﴿۲۳۸﴾ کے نزول کے بعد کی ہیں۔۔ غیر مقلید کہتے ہیں یہ حدیث منسوخ نہیں ہیں۔ کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم 7 ہجری میں ایمان لائے اور بخاری والی حدیث کے آخر میں عروہ بن زبیر کا عمل بھی ہے اور ابو داود والی حدیث کے صحابہ 10 ہجری میں ایمان لائے ۔ ان حدیث کی وضاحت کر دیں اور جن صحابہ کا ذکر حدیث میں ہے ان کے مشرف اسلام ہونے کا سن بتا دیں۔
جواب نمبر: 15202101-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 931-893/sd=9/1438
حضرت ذو الیدین کا واقعہ لازما/۲ہجری سے پہلے کا ہے ، اس لیے کہ حضرت ذو الیدین بدری صحابی ہیں، غزوہ بدر ہی میں آپ شہید ہوگئے تھے ،لہذا بلا شک و شبہہ یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے اور غزوہ بدر /۲ہجری میں ہوا ہے اور آیت قرآنی قوموا للّہِ قانتین بالاتفاق مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی ، باقی مذکورہ مسئلہ پر مدلل ومفصل کلام کے لیے آپ درس ترمذی :۱۵۱/۲تا ۱۶۳دیکھیں اور ابوداوٴد کی مذکورہ حدیث پر کلام کے لیے ( اعلاء السنن :۳۴/۵، باب فساد الصلاة بکلام الناس مطلقا)دیکھیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند