عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 151926
جواب نمبر: 151926
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1007-975/N=9/1438
فقہاء نے فرمایا: مستحب یہ ہے کہ تدفین سے فارغ ہوکر قبر کے پاس ( کم از کم) اتنی دیر ٹھہرا جائے کہ ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاسکے اور اس دوران میت کے لیے منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں ثبات قدمی اور مغفرت کی دعا کرنی چاہیے اور قرآن پاک پڑھنا چاہیے، جیسے: میت کے سرہانے سور بقرہ کی ابتدائی آیتیں اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھنی چاہیے۔ اور اس کا ثبوت درج ذیل احادیث سے ہے:
(۱): حضرت عثمان روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میت کی تدفین کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے اور فرماتے: اپنے بھائی کے لیے دعائے مغفرت کرو اور اللہ تعالی سے اس کے لیے (منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں )ثبات قدمی کا سوال کرو؛ کیوں کہ اب اس سے سوال کیا جائے گا (سنن ابو داود بہ حوالہ مشکوة شریف، ص ۲۶، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)۔
(۲) :حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اسے روک کر مت رکھو اور جلد از جلد اسے اس کی قبر تک پہنچاوٴ اور (دفن کے بعد) اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتیں (شروع سے ھم المفلحونتک) اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں (آمن الرسول سے آخر تک) پڑھی جائیں اور بیہقی نے فرمایا: صحیح یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے۔ ( شعب الایمان ، بہ حوالہ: مشکوة شریف، ص ۱۴۹)۔
(۳): حضرت عمرو بن العاص نے سکرات کی حالت میں اپنے بیٹے سے فرمایا: جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی نہ جائے اور نہ آگ، اور جب تم لوگ مجھے دفن کرچکو تو مجھ پر تھوڑی تھوڑی مٹی ڈالنا ، اس کے بعد میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر ٹھہرو کہ ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاسکے تاکہ تمہاری وجہ سے مجھے انس رہے اور میں جان سکوں کہ میں اپنے پروردگار کے فرشتوں کو کیا جواب دے رہا ہوں؟ (مسلم شریف، بہ حوالہ مشکوة شریف، ص ۱۴۹)۔
عن عثمان قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: ”استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل“، رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر، الفصل الثاني، ص ۲۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وعن عبد اللہ بن عمر قال: سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحة البقرة وعند رجلیہ بخاتمة البقرة“، رواہ البیھقي فیٴ شعب الإیمان وقال: والصحیح أنہ موقوف (المصدر السابق، کتاب الجنائز، باب دفن المیت، الفصل الثالث، ص ۱۴۹، وانظر مرقاة المفاتیح أیضاً)، وعن عمرو بن العاص قال لابنہ وھو في سیاق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار فإذا دفنتموني فشنوا علی التراب شناً ثم أقیموا حول قبري قدر ما ینحر جزور ویقسم لحمھا حتی أستأنس بکم وأعلم ماذا أراجع بہ رسل ربي؟ رواہ مسلم (المصدر السابق)، ویستحب ……بعد دفنہ لدعاء وقراء ة بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۳: ۱۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وانظر رد المحتار أیضاً۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند