معاشرت >> ماکولات ومشروبات
سوال نمبر: 8530
یہ سوال پہلے پوچھے گئے ایک سوال کے تعلق سے ہے کہ آیا انڈیا کی کھانے کی مصنوعات جن پر ای کوڈ ہوتا ہے اس میں سور کی چربی شامل ہوتی ہے؟ اس بابت آپ کا جواب یہ تھا کہ جب تک یہ بات پورے یقین سے ثابت نہ ہوجائے کہ اس میں سور کی چربی شامل ہوتی ہے تب تک یہ حرام نہیں شمار کیا جائے گا۔ میرے سوال کا یہ جواب قابل اطمینان نہیں تھا۔ لوگ ان مصنوعات کو کھاتے ہیں۔ جب اس کے بارے میں شبہ ہے تو اس کوفتوی جاری کرکے حرام ہی کہنا چاہیے یہاں تک ثابت ہوجائے کی اس میں سور کی چربی شامل ہوتی ہے یا نہیں؟ دارالعلوم دیوبند ایساکرنے میں کوئی دلچسپی کیوں نہیں لے رہا ہے جب کہ اس کو ایسا کرنے کا پاور ہے؟ یہ بہت تشویشناک معاملہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند اس معاملہ میں کیوں خاموش ہے؟ مجھے امیدہے کہ اس مرتبہ مجھے اطمینان بخش جواب ملے گا۔
یہ سوال پہلے پوچھے گئے ایک سوال کے تعلق سے ہے کہ آیا انڈیا کی کھانے کی مصنوعات جن پر ای کوڈ ہوتا ہے اس میں سور کی چربی شامل ہوتی ہے؟ اس بابت آپ کا جواب یہ تھا کہ جب تک یہ بات پورے یقین سے ثابت نہ ہوجائے کہ اس میں سور کی چربی شامل ہوتی ہے تب تک یہ حرام نہیں شمار کیا جائے گا۔ میرے سوال کا یہ جواب قابل اطمینان نہیں تھا۔ لوگ ان مصنوعات کو کھاتے ہیں۔ جب اس کے بارے میں شبہ ہے تو اس کوفتوی جاری کرکے حرام ہی کہنا چاہیے یہاں تک ثابت ہوجائے کی اس میں سور کی چربی شامل ہوتی ہے یا نہیں؟ دارالعلوم دیوبند ایساکرنے میں کوئی دلچسپی کیوں نہیں لے رہا ہے جب کہ اس کو ایسا کرنے کا پاور ہے؟ یہ بہت تشویشناک معاملہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند اس معاملہ میں کیوں خاموش ہے؟ مجھے امیدہے کہ اس مرتبہ مجھے اطمینان بخش جواب ملے گا۔
جواب نمبر: 8530
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 2139=1746/ب
فقہ کا ضابطہ ہے الأصل في الأشیاء الإباحة چیزوں کے اندر اصل اباحت ہے، جب تک ہمیں پوری پختگی کے ساتھ یہ بات نہ معلوم ہوجائے کہ حرمت کا کونسا پہلو اس کے اندر موجود ہے تب تک کوئی حتمی رائے ہم قائم نہیں کرسکتے اورمحض شک کی وجہ سے کسی چیز کو حرام کہہ دینا شریعت کے اصول کے خلاف ہے، آپ اپنی ذاتی حد تک احتیاط برت سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند