• معاشرت >> ماکولات ومشروبات

    سوال نمبر: 24225

    عنوان: میں ناروے میں رہ رہا ہوں،گذشتہ دوسال سے یہاں ایک مسئلہ چل رہا ہے۔کچھ علماء کہتے ہیں کہ یہاں کے چکن جو فروخت ہوتے ہیں، حلال ہیں مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حرام ہیں، چونکہ وہ چکن کو بجلی کا شوک دیتے ہیں، جس سے کچھ مرجاتے ہیں، لیکن اب اس میں کچھ سدھار ہوا ہے، وہ اس طرح سے کہ چکن مشین کے ذریعہ ذبح کئے جاتے ہیں جہاں مسلمان کھڑے ہوتے ہیں اور تسمیہ پڑھتے ہیں اور چار وں رگ کاٹے جاتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ مشین کے ذریعہ ذبح ہونے والے چکن کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ کیا مسلم ممالک کو یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے؟کیا چکن کو ذبح کرتے وقت سی ڈی پلیئر بجانا چاہئے یا کوئی تسمیہ پڑھے؟۔ایک عالم کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے؟ جب کہ دوسرے عالم کہتے ہیں کہ یہ درست ہے؟کس پر یقین کیا جائے؟ہر ایک کے پاس دلائل ہیں۔

    سوال: میں ناروے میں رہ رہا ہوں،گذشتہ دوسال سے یہاں ایک مسئلہ چل رہا ہے۔کچھ علماء کہتے ہیں کہ یہاں کے چکن جو فروخت ہوتے ہیں، حلال ہیں مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حرام ہیں، چونکہ وہ چکن کو بجلی کا شوک دیتے ہیں، جس سے کچھ مرجاتے ہیں، لیکن اب اس میں کچھ سدھار ہوا ہے، وہ اس طرح سے کہ چکن مشین کے ذریعہ ذبح کئے جاتے ہیں جہاں مسلمان کھڑے ہوتے ہیں اور تسمیہ پڑھتے ہیں اور چار وں رگ کاٹے جاتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ مشین کے ذریعہ ذبح ہونے والے چکن کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ کیا مسلم ممالک کو یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے؟کیا چکن کو ذبح کرتے وقت سی ڈی پلیئر بجانا چاہئے یا کوئی تسمیہ پڑھے؟۔ایک عالم کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے؟ جب کہ دوسرے عالم کہتے ہیں کہ یہ درست ہے؟کس پر یقین کیا جائے؟ہر ایک کے پاس دلائل ہیں۔

    جواب نمبر: 24225

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(تل): 1262=332-8/1431

    سوال سے ذبح کی پوری صورت واضح نہیں ہورہی ہے، بہتر یہ ہے کہ آپ پہلے فقہی مقالات جلد رابع موٴلف شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کا مطالعہ کریں، حضرت نے اس میں مشینی ذبیحہ کے شرعی احکام کو بسط وتفصیل سے نقل کیا ہے، نیز اس میں حضرت نے اپنے معائنہ بھی تحریر کیے ہیں اگر اس کے مطالعہ کے بعد بھی کوئی اشکال ہو تو اس کو لکھ کر جواب معلوم کرسکتے ہیں۔ اتنے اہم اور نازک مسئلہ میں غیرواضح سوال پر حرام وحلال کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ حلت وحرمت کے تعارض کے وقت جانب حرمت کو ترجیح ہوتی ہے اس لیے جب تک صحیح حکم شرعی معلوم نہ ہوجائے اس وقت تک احتیاط کرنا اولی و بہتر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند