• معاشرت >> ماکولات ومشروبات

    سوال نمبر: 149088

    عنوان: جو چڑیا بندوق کی گولی لگتے ہی ڈھیر ہو جائے اس کا کھانا کیسا ہے؟

    سوال: زید نے بندوق کے ذریعے ایک چڑیا مارا اور وہ چڑیا بندوق کی گولی لگتے ہی ڈھیر ہو گئی تو اب اس چڑیا کویوں کھانا جائز ہے یا نہیں؟یا زید نے بندوق چلانے سے پہلے بسم اللہ اللہ اکبرپڑھ لیا تو اب اس کو بنا ذبح کئے کھانا جائز ہے یا نہیں۔ تفصیل کے ساتھ جواب دیں۔

    جواب نمبر: 149088

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 447-424/N=6/1438

    (۱، ۲): بندوق ، طمنچہ یا اس جیسے کسی اور غیر دھار دار آلہ سے سے کیا ہوا شکار حرام ومردار ہوتا ہے اگرچہ بسم اللہ، اللہ أکبر پڑھ کر بندوق وغیرہ چلائی جائے، ایسے شکار کا کھانا جائز نہیں؛ البتہ اگرگولی لگنے سے شکار مرا نہ ہو ؛ بلکہ زندہ ہو اور اسے کوئی مسلمان بسم اللہ، اللہ أکبر پڑھ کر شرعی طریقہ پر ذبح کردے تو وہ حرام ومردار نہ ہوگا اور اس کا کھانا حلال وجائز ہوگا۔ عن عدي بن حاتم قال: سألت النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن صید المعراض فقال: ما أصاب بحدہ فکلہ وما أصاب بعرضہ فھو وقیذ (صحیح البخاري، ص ۸۳۲)، ولا تأکل من المعراض إلا ما ذکیت ولا تأکل من البندقة إلا ما ذکیت رواہ أحمد (نیل الأوطار ۸: ۱۳۷)، ولایخفی أن الجرح بالرصاص إنما ہو بالإحراق والثقل بواسطة اندفاعہ العنیف، إذ لیس لہ حد، فلا یحل، وبہ أفتی ابن نجیم (رد المحتار، کتاب الصید ۱۰: ۶۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وأما الحنفیة فالجمہور منہم في دیارنا علی عدم حل المصید بالرصاص ما لم یدرک حیًّا فیذبح بطریق مشروع، وحجتہم ما مرّ عن ابن عابدین من أن الرمي بالرصاص رض ووقذ، ولیس جرحًا، وما ذکرہ الرافعي من أنہ إن وقع الشک ولا یُدري مات بالجرح أو الثقل کان حرامًا(تکملة فتح الملہم، کتاب الصید والذبائح، حکم الصید ببندقة الرصاص ۳:۴۹۱، ط: مکتبة دار العلوم کراتشي)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند