• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 65563

    عنوان: طلاق کی صورت میں پرورش کا حق کسے حاصل ہے؟

    سوال: حامد وحامدہ مین طلاق ہوگئی ایک لڑکا ہے پرورش کا حق کس کو ہے ؟ اور لڑکے کا نفقہ کس پر اور کتنا اور کب کب اداکرے گا کیا باپ پر لڑکے کا سات سال کا نفقہ ایک ہی مرتبہ ادا کرنا ضروی ہے ؟ مدلل وتفصیلی جواب مطلوب ہے ۔

    جواب نمبر: 65563

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 798-788/N=8/1437 (۱): صورت مسئولہ میں چاند کے حساب سے لڑکے کی عمر سات سال مکمل ہونے تک حامدہ کو حق پرورش حاصل ہے اور بچہ مکمل سات سال کا ہونے تک حامدہ کی پرورش میں رہے گا ،بشرطیکہ حامدہ کسی ایسے شخص سے نکاح نہ کرے جو بچے کے حق میں نسبی محرم نہ ہو، ورنہ اس کا حق پرورش ختم ہوکر نانی کو ملے گا اور اگر نانی نہ ہو یا وہ اس ذمہ داری کے لیے تیار نہ ہو تو دادی کو ملے گا۔ اور جب بچہ چاند کے حساب سے مکمل سات سال کا ہوجائے گا تو حامد کو حق ہوگا کہ بچے کو اس کی ماں یا نانی وغیرہ سے لے کر اپنے پاس رکھے، سات سال کے بعد ماں وغیرہ کو بچہ اپنے پاس رکھنے کا حق نہ ہوگا، اور حامد بچے کو اپنے پاس رکھ کر اس کی دینی تعلیم وتربیت وغیرہ کا نظم کرے گا اور شادی کے لائق ہوجانے پر اس کی شادی وغیرہ کرے گا۔ وأما بیان من لہ الحضانة فالحضانة تکون للنساء في وقت وتکون للرجال في وقت، والأصل فیہا النساء لأنہن أشفق وأرفق وأہدی إلی تربیة الصغار، ثم تصرف إلی الرجال لأنہم علی الحمایة والصیانة وإقامة مصالح الصغار أقدر (بدائع الصنائع ۳: ۴۵۶، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)،أحق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح، أو بعد الفرقة الأم … وإن لم یکن أم تستحق الحضانة بأن کانت غیر أہل للحضانة، أو متزوجة بغیر محرم أو ماتت، فأم الأم أولیٰ۔ فإن لم یکن للأم أم، فأم الأب أولیٰ ممن سواہا، وإن علت(فتاوی عالمگیری قدیم ۱: ۵۴۱،مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)،والحاضنة یسقط حقھا بنکاح غیر محرمہ أي: الصغیر ……وتعود بالفرقة البائنة الخ،والحاضنة أما أو غیرہا أحق بہ أي بالغلام حتی یستغنی عن النساء وقدر بسبع، وبہ یفتیٰ؛لأنہ الغالب( در مختار مع شامی ۵: ۲۶۶، ۲۶۷، مطبوعہ:مکتبہ زکریا دیوبند)۔ (۲-۵):بالغ ہونے تک بچہ کا نفقہ حامد پر واجب ہوگا ،جو ہفتہ وار ماہانہ حسب سہولت ادا کیا جائے گا اور نفقہ کی مقدار حامد کی مالی حالت وحیثیت اور بچے کی ضروریات کے مد نظر متعین کی جائے گی۔ سات سال کا نفقہ یک مشت ادا کرناحامد کے ذمہ ضروری نہیں ، اگر حامدہ اس کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا یہ مطالبہ صحیح نہیں۔ وتجب النفقة بأنواعھا علی الحر لطفلہ ……الفقیر الحر الخ(در مختار مع شامی ۵: ۳۳۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند