• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 608592

    عنوان:

    کیا کوئی شخص ذاتی مطالعہ سے مولوی بن سکتا ہے؟

    سوال:

    سوال : ۔ 1)حدیث "إنما العلم بالتعلم" کا مطلب کیا ہے ؟ 2)بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں مولویت نہیں ہے ۔ ہر شخص خود سے دین سیکھ سکتا ہے ۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں اس اعتراض کا مفصل جواب عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 608592

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 574-450/M=05/1443

     ”إنما العلم بالتعلم“ کا واضح اور صحیح مطلب یہی ہے کہ صحیح اور معتبر علم وہی ہے جو اہل علم سے سیکھ کر حاصل کیا جائے، دین کا اتنا علم سیکھنا کہ جس سے عقائد درست ہوجائیں، فرائض کی ادائیگی پر قادر ہوجائے اور حلال و حرام میں تمیز کرسکے، یہ ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ اور تفصیلی طور پر قرآن و حدیث اور شریعت کا علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے، اسی فرض کفایہ کو ادا کرنے والے یہی مولوی حضرات ہیں؛ لہٰذا یہ کہنا کہ ”اسلام میں کوئی مولویت نہیں ہے“ درست بات نہیں ہے۔ اور یہ کہنا کہ ”ہرشخص خود سے دین سیکھ سکتا ہے“ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ ”ہر شخص ازخود ڈاکٹر بن سکتا ہے“۔ ظاہر ہے کہ باقاعدہ طور پر کسی ماہر صاحب فن کے پاس رہے بغیر جب کسی فن کا اعتبار نہیں کیا جاتا توعلم دین کے بار ے میں ایسا کہنا کیوں کر درست ہوگا؟

    قال ابن حجر فی فتح الباری: قولہ: ”إنما العلم بالتعلّم“ المعنی: لیس العلم المعتبر إلاَّ المأخوز من الأنبیاء وورثتہم علی سبیل التعلّم۔ (1/161، ط: دار المعرفة، بیروت)۔

    وقال الشامی فی شرح عقود رسم المفتی: وقد رأیت في فتاوی العلاّمة ابن حجر، سئل في شخصٍ یقرأ ویطالع الکتب الفقہیة بنفسہ، ولم یکن لہ شیخ، ویفتي، ویعتمد علی مطالعتہ في الکتب، فہل یجوز لہ ذلک أم لا؟ فأجَاب بقولہ: لا یجوز لہ الإفتاء یوجہٍ من الوجوہ؛ لأنہ عاميّ جاہل لا یدري ما یقول۔ (ص: 17، ط: مکتبة البشریٰ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند