• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 607091

    عنوان:

    مدرسة البنات کا قیام اور اس کی شرائط

    سوال:

    کیا شریعت میں عورتوں کا قیام طعام کے ساتھ مدرسہ کی اجازت ہے ؟ کیا ہمارے اسلاف نے کوئی ایسا ادارہ قایم کیا ہے ،؟اگر اجازت ہے تو اسکے حدود وضاحت سے بتائیں؟

    جواب نمبر: 607091

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:109-42T/B-Mulhaqa=4/1443

     اسلام کی نظر میں دینی تعلیم مرد وعورت دونوں کے لیے یکساں طور پر مطلوب ہے ، اور بنیادی عقائد، فرائض اورحلال حرام کا جاننا ہرمرد وعورت پر فرض ہے ، قرآن کریم نے علم کوانسانوں کے لیے بطور انعام الٰہی کے بیان فرمایا ہے اوراس میں کہیں بھی مردوں کی تخصیص نہیں ہے ،نیز مستند احادیث میں عورتوں اور اپنے اہل وعیال کو تعلیم دینے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ صحیح بخاری کتاب العلم (۱۹/۱) میں ہے : قال مالک بن الحویرث: قال لنا رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- ارجعوا إلی أہلیکم فعلموہم بلکہ تعلیم کے لیے عورتوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور آپ علیہ السلام کا ان کی درخواست پر ان کی تعلیم کے لیے ایک دن مخصوص کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے ،اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (۲۰/۱) میں ہل یجعل للناس یوماً علی حدة کے عنوان سے ایک باب قائم فرمایا ہے اور اس کے تحت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث لائے ہیں، نیز تجربہ سے ثابت ہے کہ اجتماعی تعلیم جس قدر مفید ہوتی ہے انفرادی تعلیم اتنی مفید نہیں ہوتی، اس لیے مدارسِ نسواں کا قائم کرنا اور لڑکیوں وعورتوں کا تعلیم وتعلم کے لیے وہاں جانا اوران کا اپنی صنف کے مطابق علوم وفنون سیکھنا جائز اور مستحسن ہے اس لیے کہ اس کا مبنی تعلیم وتعلم کی تنظیم وتشکیل ہے ، البتہ مدارسِ نسواں میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے میں درج ذیل امور کا لحاظ بہرحال لازم ہے :

    (1) مدرسة تک خواتین کی آمد ورفت کا شرعی پردہ کے ساتھ ایسا محفوظ انتظام ہو کہ کسی مرحلہ میں بھی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔

    (2)نیک کردار، پاک دامن عورتوں کو تعلیم کے لیے مقرر کیا جائے ، اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں تو بدرجہ مجبوری نیک صالح اور قابل اعتماد مردوں کو مقرر کیا جائے جو پس پردہ خواتین کو تعلیم دیں۔

    (3)مدرسہ کے حالات کی کڑی نگرانی اور مفاسد وفتن کی روک تھام کا اہتمام بہت ہی اعلیٰ درجہ کا ہو۔

    (4)مدرسہ والوں کے عقائد اہل سنت والجماعت کے عقائد کے موافق ہوں تاکہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے سے عقائد خراب نہ ہوں۔(دیکھیں: کفایت المفتی:2/51- 67،بہشتی زیور،85-91،اختری، احسن الفتاوی:8/59)

    مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ اگر کسی مدرسے میں تعلیم دی جاتی ہو تو وہاں لڑکیوں کو تعلیم دلانا جائز اورمباح ہوگا، قیام کے ساتھ بھی گنجائش ہوگی، گو یہ بہتر نہیں ہے ، ہماے اسلاف کے فتاوی کے تتبع پر تعلیم نسواں کے جواز؛ بلکہ اس کی ترغیب تو ملی؛ لیکن اقامتی مدرسے کا قیام کی صراحتا اجازت کسی فتوے میں نہیں ملی؛ اس لیے بہتر بہرحال یہی ہے کہ لڑکیوں کا غیر اقامتی مدرسہ ہی قائم کیا جائے ، جہاں بچیاں صبح کو اپنے کسی محرم کے ساتھ جائیں اور شام کو محرم انھیں وہاں سے لے آئیں ۔واضح رہے کہ لڑکیوں کو تعلیم دلانے میں والدین کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ کم سے کم عمر میں لڑکی زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرلے ؛ کیوں کہ بڑی لڑکیوں کو دور دراز بھیجنے میں مفاسد ہیں اس لیے بالکل شروع ہی سے ان کی تعلیم کی طرف توجہ دی جائے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند