معاشرت >> تعلیم و تربیت
سوال نمبر: 606861
تعلیم وتربیت کے لیے بچوں کو زیادہ مارنا پیٹنا؟
بچوں کو ان کے برداشت سے زیادہ مارنا کیسا ہے تعلیم کے لیے یا پھر تربیت کے لیے ؟ دونوں صورتوں نے میں دارالعلوم کیا فتوی دے گا؟ مہربانی کرکے ارسال فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
جواب نمبر: 606861
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:4-4/B-SN=3/1443
بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ مارنا جائز نہیں ہے ، نہ تعلیم کے لیے اور نہ ہی تربیت کے لیے ، ضرورت پڑنے پر باپ یا ان کی اجازت سے استاذ صرف ہلکی مار مارسکتے ہیں ؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ حساس مقامات (مثلا چہرہ وغیرہ )پر نہ ماریں ۔
ویؤمر الصبیّ بالصلاة إذا بلغ سبعا، ویضرب علیہ إذا بلغ عشرا بہ ورد الحدیث، وکذا من فی حجرہ یتیم لہ أن یضربہ إذا بلغ عشرا علی ترک الصلاة؛ فإنہ ذکر فی مجموعات السمرقندی لہ أن یضرب الیتیم فیما یضرب بہ ولدہ.(غنیة المتملی،3/212،(مطلب: فی حکم ضرب الیتیم أو الزوجة لترک الصلاة ونحوہا)
(والأب یعزر الابن علیہ) وقدمنا أن للولی ضرب ابن سبع علی الصلاة، ویلحق بہ الزوج نہر. وفی القنیة: لہ إکراہ طفلہ علی تعلم قرآن وأدب وعلم لفریضتہ علی الوالدین، ولہ ضرب الیتیم فیما یضرب ولدہ.[الدر المختار)(قولہ والأب یعزر الابن علیہ) أی علی ترک الصلاة. ومثلہا الصوم کما صرحوا بہ....، وأن المراد بالابن الصغیر بقرینة ما بعدہ، أما الکبیر فکالأجنبی...(قولہ ابن سبع) تبع فیہ النہر، والذی قدمہ فی کتاب الصلاة أمر ابن سبع وضرب ابن عشر. اہ. ح وہکذا ذکرہ القہستانی عن الملتقط، والمراد ضربہ بید لا بخشبة کما تقدم ہناک(قولہ وفی القنیة إلخ) وفیہا عن الروضة: ولو أمر غیرہ بضرب عبدہ حل للمأمور ضربہ، بخلاف الحر.
قال: فہذا تنصیص علی عدم جواز ضرب ولد الآمر بأمرہ، بخلاف المعلم؛ لأن المأمور یضربہ نیابة عن الأب لمصلحة والمعلم یضربہ بحکم الملک بتملیک أبیہ لمصلحة الولد اہ وہذا إذا لم یکن الضرب فاحشا کما إلخ.[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/ 129، باب التعزیر، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند