• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 606191

    عنوان:

    یتیم نابالغ بچوں کے مال کی حفاظت کس کے ذمہ ہے؟

    سوال:

    معزز مفتیان کرام دارالعلوم دیوبند۔ میری بیٹی کے شوہر کا انتقال اسی سال کرونا کی وجہ سے ہوگیا ہے ان کے تین لڑکے ہیں جن کی عمر بالترتیب تین سال اور دوسال (دوبچے جڑوا ں ہیں)ہے ان کی اہلیہ یعنی میری بیٹی موجود ہے مرحوم کے والد پہلے ہی انتقال کر چکے ہیں مرحوم کی والدہ ہیں لیکن بہت ضعیف ہیں اور بیمار رہتی ہیں انکے علاوہ مرحوم کے دو بھائی ہیں ایک شادی شدہ اور ایک غیر شادی شدہ بچوں کی پرورش اور دیکھ ریکھ کی ذمے داری نیز وراثت میں بچوں کے حصے کی رقم یا مدد کے طور پر جو مرحوم کی اہلیہ اور بچوں کو ملے گی کی حفاظت وذمے دار ی اور دیکھ ریکھ کس کی ہوگی بچوں کے ماں کی یا پھر بچوں کے چچا وغیرہ کی ویسے بچوں کے نانا اور نانی بھی ماشائاللہ حیات ہیں برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں -جزاک اللہ خیرا

    جواب نمبر: 606191

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 125-122/D=02/1443

     اگر بچے خود مالدار ہیں تو ان کا نفقہ ان کے مال میں واجب ہے، کوئی رشتہ دار تبرعاً ان پر خرچ کرے تو اور بات ہے۔ اور اگر بچے مالدار نہیں ہیں تو ان کا نفقہ ان کے وارثوں پر (میراث کے حصوں کے تناسب سے) واجب ہے۔

    جہاں تک ان کے مال اور مملوکہ چیزوں کی نگرانی کی بات ہے تو اگر والد مرحوم نے کسی کو وصی مقرر کیا تھا تو یہ اس کی ذمہ داری ہے، اور اگر کسی کو وصی مقرر نہیں کیا تھا توخاندان کے بڑے اور تجربہ کار حضرات بیٹھ کر مشورہ کرلیں کہ بچوں کا مال ان کے چچا کی نگرانی میں رہے یا والدہ کی، جو صورت بچوں کے حق میں بہتر ہو اور جس میں ان کی مصلحت ہو اس کو اختیار کرلیا جائے۔

    فی الہندیة: والنفقة لکل ذی رحم محرم إذا کان صغیراً فقیراً أو کانت امرأة بالغة فقیرة أو کان ذکراً فقیراً زمنا أو أعمی، ویجب ذلک علی قدر المیراث ویجبر، کذا فی الہدایة۔ (1/611، ط: زکریا، الطلاق/ الفقة/ الفصل الخامس) ونحو فی الدر والرد: 5/361-364، ط: زکریا، الطلاق/ النفقة۔

    فی الدر: والولایة في مال الصغیر إلی الأب ثم وصیہ ثم وصي وصیہ ․․․․․ ثم إلی الجد أبي الأب ثم إلی وصیہ ثم وصي وصیہ ثم إلی القاضي ثم إلی من نصبہ القاضي ثم وصي وصیہ۔ (ردا لمحتار: 11/481، ط: زکریا، الوکالة/ الوکالة بالبیع والشراء)

    فی الدر: والولي فی النکاح لا المال العصبة بنفسہ۔

    وفي الرد: قولہ: ”لا المال“: فإن الولي فیہ الأب و وصیہ والجد و وصیہ والقاضي ونائبہ فقط۔ (4/190-191، النکاح / الولي)

    فتاوی محمودیہ میں ہے: ”والد مرحوم کے ترکے میں جو کچھ بچوں کا حصہ ہے اگر اس کی حفاظت چچا بخوبی کرسکیں تو چچا کے پاس رہے اگر والدہ زیادہ حفاظت کرسکے تو والدہ کی نگرانی میں رہے، اس کو خاندان کے بڑے اور تجربہ کار حضرات باہمی مشورہ سے تجویز کرلیں کہ بچوں کے حق میں کیا صورت زیادہ مفید اور قابل اطمیان ہے کہ ان کا مال کس کے پاس رہنا چاہئے“۔ (13/577جدید، کتاب الصلاة/ باب الحضانة، سوال نمبر: 6666)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند