• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 55912

    عنوان: بچے كی پیدائش اور تعلیم وتربیت سے متعلق

    سوال: امید ہے کہ آپ سب بخیر ہوں گے، مجھے چند سوالات کرنے ہیں جن کا تعلق بچہ پیدا ہونے کے بعد سے ہے۔ (۱) بچہ پیدا ہوتے ہی سب سے پہلا عمل کیا ہوناچاہئے؟( یعنی بچے کی ساتھ ) (۲) اگر لڑکا ہو یا لڑکی ہو تو دونوں کے لیے جدا جدا عمل ہے یا ایک عمل ہے؟میں نے سنا ہے کہ پیدا ہونے کے بعد دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنی چاہئے ، کیا یہ سنت ہے؟ (۳) میں نے یہ بھی سنا ہے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کو کچھ شہد یا کھجور میٹھی چیز کو کسی بزرگ سے چبواکر بچے کو کھلانا چاہئے، کیا یہ سنت ہے؟ (۴) بچہ شیطان کے اثر سے محفوظ رہے تو اس کے لیے کیا کیا کرنا چاہئے؟ (۵) دودھ پلانا ماں پر فرض ہے یا کوئی اور بھی پلاسکتی ہے ؟ (۶) کیا اس کے لیے اجرت دینا چاہئے؟ (۷) کتنے عرصے تک دودھ پلانے کی اجازت ہے؟ (۸) میں نے سنا ہے کہ دودھ جلد چھڑا دینے سے بچے کو کمزوری ہوگی، کیا یہ صحیح ہے؟ (۹)بچے کا نام کس دن رکھنا چاہئے؟ (۱۰) ختنہ کس دن کرنا چاہئے؟

    جواب نمبر: 55912

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1517-1512/N=1/1436-U (۱) بچہ پیدا ہونے کے بعد جب اُسے نہلادیا جائے تو سب سے پہلے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے، یہ تمام علمائے امت کے نزدیک مسنون ومستحب ہے اورخود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت پر ان کے کان میں اذان کہی تھی جیسا کہ سنن ترمذی شریف (ابواب الاضاحی، باب الاذان فی أذن المولود ۱:۲۷۸ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند) میں ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن صحیح قرار دیا ہے اور یہ فرمایا ہے: اس پر سب کا عمل ہے۔ اور ابویعلی موصلی اور ابن السنی نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہوا اور اس نے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تو ام الصبیان سے اسے کوئی نقصان نہ ہوگا (تحفة الاحوذی ۵:۸۹ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) اور مصنف عبد الرزاق (۴:۳۳۶) میں ہے: حضرت عمر بن عبدا لعزیز رحمہ اللہ کے یہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو آپ اسے لے کر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے اوراسی جگہ اسکا کوئی نام رکھتے۔ (۲) نومولود لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے گی اور آپ نے جو سنا ہے صحیح ہے جیسا کہ اوپر تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا، ”قال النووی في شرح المہذب: السنة أن یوٴذن في أذن المولود عند ولادتہ ذکرا کان أو أنثی (إعلاء السنن: ۱۷/۱۳۲)۔ (۳) جی ہاں! یہ بھی سنت ہے اور اسے تحنیک کہتے ہیں اورافضل کھجور ہے اور اگر کھجور نہ ہو تو کوئی بھی میٹھی چیز تالو میں لگائی جائے عن عائشة قالت: أُتي النبی صلی اللہ علیہ وسلم بصبي یحنکہ ویدعو لہ الحدیث (شرح معاني الآثار ۱:۶۸، باب حکم بول الغلام والجاریة قبل أن یأکلا الطعام) وقال فيإعلاء السنن (۱۷: ۱۲۳) عن النووي: والسنة أن یحنک المولود عند ولادتہ بتمر بأن یمضغہ إنسان ویدلک بہ حنک المولود ویفتح فاہ حتی ینزل إلی جوفہ شیء منہ، قال: قال أصحابنا: فإن لم یکن تمر فبشیء آخر حلو، ودلیل التحنیک وکونہ بتمر الحدیث الصحیح الذي رواہ الشیخان عن أنس قال: ولد لأبي طلحة غلام فأتیت بہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: ہل معک تمر؟ قلت: نعم، فناولتہ تمرات فلاکہن ثم فغرفاہ ثم مجّہ فیہ․․․ قال: وینبغي أن یکون المحنک من أہل الخیر، فإن لم یکن رجل فامرأة صالحة اھ․ (۴) شیطانی اثرات سے حفاظت کے لیے بچہ پر آیت الکرسی اورمعوذتین وغیرہ پڑھ کر دم کیا جائے اور اگر روزانہ صبح وشام اور سوتے وقت اسکا معمول بنالیا جائے تو بہت بہتر ہے اور حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ان الفاظ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاة والسلام بھی حضرت اسحاق اورحضرت اسماعیل کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیا کرتے تھے، وہ الفاظ یہ ہیں: ”أُعِیذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَھَامَّةٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّةٍ“ (ترمذی شریف: ۲/۲۷/ باب ما جاء في الرقیة من العین) اور اگر ایک بچہ ہو تو اسے مخاطب بناکر اُعِیذکما کے بجائے اُعیذکَِ کہا جائے البتہ اگر لڑکا ہو تو کاف کو زبر دیا جائے اور اگر لڑکی ہو تو کاف کو زیر دیا جائے۔ (۵) ماں پر بچہ کو دودھ پلانا واجب وضروری ہے، البتہ اگر باپ مالدار ہو اور کوئی دودھ پلانے والی عورت رکھ سکتا ہے اور بچہ اس کا دودھ لے بھی رہا ہے تو ماں کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور اگر باپ غریب ہے یا بچہ کسی دوسری عورت کادودھ نہیں لیتا تو ماں کو دوھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا، ولیس علی أمہ إرضاعہ قضاءً بل دیانة إلا إذا تعینت فتجبر کما مر في الحضانة (در مختار مع الشامي: ۵: ۳۴۷ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) وانظر الرد أیضًا۔ (۶) اگر بچہ کی ماں بچہ کے باپ کے نکاح یا عدت میں ہے تو اس کے لیے بچہ کے باپ سے دودھ پلانے پر اجرت لینا جائز نہیں، اوراگر اس کے نکاح اورعدت میں نہیں رہی ہے تو وہ دودھ پلانے پر اجرت لے سکتی ہے کذا في الدر والرد (۵:۳۴۸، ۳۴۹ ط: مکتبہ زکریا دیوبند) (۷) راجح ومفتی بہ قول کے مطابق عورت چاند کے حساب سے دو سال تک بچے کو ددھ پلاسکتی ہے، اس کے بعد نہیں في وقت مخصوص ہو حولان ونصف عندہ وحولان فقد عندہما وہو الأصح فتح، وبہ یفتی کما في تصحیح القدوري عن العون لکن في الجوہرة أنہ في الحولین ونصف ولو بعد الفطام محرِّم وعلیہ الفتوی، ․․․ والأصحّ أن العبرة لقوة الدلیل (درمختار مع الشامي: ۴/۳۹۳-۳۹۷) قولہ: ”والأصح أن العبرة لقوة الدلیل“ قال في البحر: ولا یخفی قوة دلیلہما إلخ (شامي) (۸) ماں کا دودھ بچہ کے لیے بیحد مفید ہوتا ہے اس لیے دو سال کے قریب دودھ چھڑانا چاہیے، اس سے پہلے نہیں؛ کیوں کہ کم دودھ پلانے کی صورت میں بچہ کمزور رہے گا؛ لہٰذا آپ نے جو سنا ہے وہ صحیح ہے۔ (۹) ولادت کے بعد سے ساتویں دن تک جب چاہیں بچہ کا نام رکھ سکتے ہیں، ساتویں دن سے زیادہ تاخیر کرنا اچھا نہیں کذا في اعلاء السنن (۱۷: ۱۱۹) (۱۰) بہتر یہ ہے کہ بچہ کا ختنہ ساتویں دن کردیا جائے اگر بچہ میں برداشت کی طاقت ہو ورنہ جب برداشت کے قابل ہوجائے کذا فی اعلاء السنن (۱۷: ۱۱۹) ومجمع الأنہر والدر المنتقی (۴: ۴۹۰، ۴۹۱ ط: دار الکتب العلمیہ بیروت) (۱۱) جی ہاں! بچے کے عقیقہ کا گوشت ماں باپ وغیرہ بھی کھاسکتے ہیں، سارا گوشت دوسروں یا غریبوں کو دیدینا ضروری نہیں، البتہ اگر آدمی کثیر العیال نہ ہو تو قربانی کی طرح عقیقہ کا گوشت بھی تین حصوں میں تقسیم کرنا اور اس میں سے ایک حصہ اپنے لیے رکھنا، ایک حصہ دوست واحباب اور رشتہ داروں میں تقسیم کرنا اور ایک حصہ غریبوں میں مستحب ہے لأن العقیقة کالأضحیة في کثیر من الأحکام۔ (۱۲) جی نہیں، ددھیالی اور ننہالی رشتہ داروں کی موجودگی ضروری نہیں، ان کے بغیر بھی بچہ کا عقیقہ ہوجاتا ہے۔ (۱۳) جی ہاں! قربانی کی طرح عقیقہ کا گوشت غیرمسلم کو بھی دے سکتے ہیں، کذا فی الہندیہ (۵:۳۰۰ ط: مکتبہ زکریا دیوبند) واعلاء السنن (۱۷: ۲۵۸، ۲۶۲) وحاشیة الطحطاوی علی الدر (۴:۱۶۶ ط: دار الکتب العلمیہ بیروت) والفتاوی التاتارخانیة (۱۷: ۴۳۷ ط: مکتبہ زکریا دیوبند) وغیرہا۔ (۱۴) قربانی اور عقیقہ میں بچند وجوہ فرق ہے: ایک: عقیقہ مستحب ہے اور قربانی صاحب استطاعت پر واجب ہوتی ہے، دوسرا: قربانی صاحب استطاعت پر ہرسال واجب ہوتی ہے اور عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے۔ تیسرا: قربانی کے خاص ایام ہیں، ان کے علاوہ دیگر دنوں میں قربانی نہیں ہوسکتی جب کہ عقیقہ پورے سال کبھی بھی کرسکتے ہیں، اس کے لیے کوئی دن متعین نہیں، البتہ ولادت کے ساتویں دن کرنا یا اس کے بعد جب کبھی کرے ساتویں دن کا لحاظ رکھے تو یہ مستحب ہے۔ (۱۵) جی ہاں! قربانی کے جانور عقیقہ کا حصہ لے سکتے ہیں، جائز ہے۔ (۱۶) جی ہاں! ایسا کرسکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں اور اس میں کسی مصیبت یا پریشانی کا کوئی اندیشہ نہیں؛ بلکہ ایسا فاسد عقیدہ رکھنا جائز ہی نہیں۔ (۱۷) اگر بچہ پیمپر میں نجاست کردینے کے بعد دیر تک نجاست میں لت پت رہے گا تو لازمی طور پر بچہ پر اسکے منفی اثرات مرتب ہوں گے لہٰذا جب بچہ پیمپر میں پیشاب یا پاخانہ کردے تو اسے اتارکر پھینک دیں اور بچہ کے جسم سے نجاست دھوکر دوسرا پیمپر پہنا دیں۔ اور اگر پیمپر کا خرچہ زیادہ ہو تو لنگوٹ یا چڈی وغیرہ استعمال کریں۔ (۱۸) بچہ کا پہلا مدرسہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہوتا ہے لہٰذا ماں کو اور گھر کے تمام افراد کو شریعت وسنت کی پابندی کا بہت اہتمام کرنا چاہیے اور گناہوں سے بچنا چاہیے اور بچہ کو مختلف مسنون دعائیں اور سنتیں وغیرہ یاد کرانی چاہیے اور دینی تعلیم کے وقت اسے ساتھ بٹھالینا چاہیے۔ (۱۹) اگر ڈاکٹر سے جنس دریافت کرنے کا مقصد یہ ہو کہ اگر لڑکی ہوئی تو اسقاط کرادیں گے تو یہ پوچھنا ناجائز ہوگا اور اگر یہ مقصد نہ ہو، بس محض ایک جانکاری لینا ہو تو یہ غیر ضروری سوال ہے؛ کیوں کہ ولادت کے بعد اس کا لڑکا یا لڑکی ہونا معلوم ہوہی جائے گا اور حدیث میں ہے: من حسن إسلام المرء ترکہ ما یلا یعنیہ (مشکاة شریف ص ۴۱۳ بحوالہ موطا مالک ومسند احمد وغیرہ)۔ (۲۰) آیت کریمہ: ”وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الاَرْحَامِ“ (لقمان: ۳۴) کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری اسباب اور جدید آلات ومشینوں کے بغیر ولادت سے پہلے بچہ کی جنس اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا اورڈاکٹر لوگ جدید آلات ومشینوں کے ذریعہ جانتے ہیں، نیز ان کا علم محض ظنی ہوتا ہے، قطعی ویقینی نہیں ہوتا اسی لیے الٹراساوٴنڈ کی رپورٹ ہمیشہ صحیح نہیں ہوتی، نیز اس میں ڈاکٹر کا کوئی ذاتی کمال نہیں ہوتا، وہ جو کچھ جانتا ہے وہ مشین کے ذریعہ اندرون کا عکس لے کر جانتا ہے۔ (۲۱) اگر اس میں ماں یا بچہ کے حوالہ سے کوئی مصلحت ہو تو کوئی حرج نہیں ورنہ بلاوجہ بچہ کو ماں سے دور رکھنے کی ضرورت نہیں۔ (۲۲) اگر ماں کی راحت کی خاطر ایسا کیا جاتا ہے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ (۲۳) ماں کی راحت کی خاطر ایسا کرنے میں کچھ حرج نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند