معاشرت >> تعلیم و تربیت
سوال نمبر: 43771
جواب نمبر: 43771
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 217-181/N=3/1434 مدت رضاعت کے سلسلہ میں محققین کے نزدیک مفتی بہ قول دو سالکا ہے جب کہ بعض علما نے ڈھائی سال کے قول کو مفتی بہ قرار دیا ہے، اور آپ کے دادا جان ماشاء اللہ حافظ قرآن اور جائز وناجائز کی فکر رکھنے والے تھے اور عام طور پر بچے ڈیڑھ سال کے بعد اوپری غذا کھانے لگتے ہیں اس لیے غالب گمان اسی کا ہے کہ آپ کی والدہ نے سوال میں مذکور چچا کو دو سال کے اندر دودھ بلایا ہے، پس اگر صحیح بات یہی ہے تو آپ کے چھوٹے بھائی کا نکاح ان چچا صاحب کی بیٹی سے ہرگز جائز ودرست نہ ہوگا کیونکہ رضاعی بہن بنص قرآنی محرمات میں سے ہے ۔ قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَاتُکُمْ وَبَنَاتُ الْاَخِ وَبَنَاتُ الْاُخْتِ وَاُمَّہَاتُکُمُ اللّٰاتِیْ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَۃِ۔ الآیۃ (سورۂ نسا آیت: ۲۳) اور اگر یہ بات صحیح نہ ہو اور آپ کی والدہ نے آپ کے چچا کو دو سال کے بعد ڈھائی سال مکمل ہونے سے پہلے دودھ پلایا ہو تب بھی احتیاط اسی میں ہے کہ یہ نکاح نہ کیا جائے کیونکہ بعض علما نے ڈھائی سال کے قول کو مفتی بہ قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر گذرا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند