عنوان: اسلام علیکم میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ بیٹے کی پرورش کا حقدار 7 سال بعد والد ہوتا ہے . کیا والد یا والدہ میں یہ باتیں ہوں تو کیا پرورش کا حق نہیں ملتا یا پھر بھی حقدار رہتے ہیں. 1.جس میں شرکیہ عقائد ہوں کیا ایسا شخص حقدار رہےگا? 2.جو سود کھاتا ہو اور اسی سے بچے کی پرورش کرے کیا ایسا شخص حقدار رہےگا 3.جو غیر مسلم ملک میں رہتا ہو?کیا ایسا شخص حقدار رہےگا 4.جو گناہ کبیرہ کرتا ہو?کیا ایسا شخص حقدار رہےگا 5.جو بچے کو اسلامی تربیت نہ دے?کیا ایسا شخص حقدار رہےگا 6.جو بدعتی ہو?کیا ایسا شخص حقدار رہےگا 7 .جو حرام کو جائز سمجھتا ہو کیا ایسا شخص حقدار رہےگا?
سوال: اسلام علیکم
میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ بیٹے کی پرورش کا حقدار 7 سال بعد والد ہوتا ہے .
کیا والد یا والدہ میں یہ باتیں ہوں تو کیا پرورش کا حق نہیں ملتا یا پھر بھی حقدار رہتے ہیں.
1.جس میں شرکیہ عقائد ہوں کیا ایسا شخص حقدار رہےگا?
2.جو سود کھاتا ہو اور اسی سے بچے کی پرورش کرے کیا ایسا شخص حقدار رہےگا
3.جو غیر مسلم ملک میں رہتا ہو?کیا ایسا شخص حقدار رہےگا
4.جو گناہ کبیرہ کرتا ہو?کیا ایسا شخص حقدار رہےگا
5.جو بچے کو اسلامی تربیت نہ دے?کیا ایسا شخص حقدار رہےگا
6.جو بدعتی ہو?کیا ایسا شخص حقدار رہےگا
7 .جو حرام کو جائز سمجھتا ہو کیا ایسا شخص حقدار رہےگا?
جواب نمبر: 2270601-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب):1089=897-6/1431
والدہ کو سات سال تک لڑکے کی پرورش کا حق ہوتا ہے، پھر اگر والدہ کے عقائد شرکیہ ہوں یا وہ باپ سے دور بچہ کو دوسرے ملک میں رکھنا چاہتی ہو یا وہ فاجرہ ہو اور گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتی ہو تو اس کا حق حضانت ختم ہوجائے گا اور بچہ کو اس کے پاس نہیں چھوڑا جائے گا، بلکہ نانی یا دادی یا حقیقی بہن یا اخیافی یا علاتی بہن کو دے دیا جائے گا اور سات سال کے بعد لڑکے کی پرورش کا حق دار والد ہوتا ہے، ارتداد اور شرک کے علاوہ دیگر امور کی وجہ سے اس کا حقِ حضانت ختم نہیں ہوتا، ہاں اگر وہ مرتد ہوجائے یا شرکیہ عقائد رکھتا ہو تو اس صورت میں تاحدِ بلوغ بچہ کو خیر الابوین دیناً کے تابع قرار دیا جائے گا اور حق پرورش دادا، حقیقی، علاتی بھائی اور ان کی اولاد اسی طرح دیگر عصبات کی طرف علی ترتیب الارث منتقل ہوتا رہے گا۔ کما صرَحوا بذلک في کتب الفقہ (الفتاوی الہندیة: ۱/۵۴۱، الباب السادی عشر)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند