معاشرت >> تعلیم و تربیت
سوال نمبر: 175976
جواب نمبر: 175976
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:462-381/L=5/1441
نومولود کے کان میں اذان واقامت خاص مصالح کی بناپر ہے مثلا:(۱) بچہ دنیا میں آنے کے بعد بچہ سب سے پہلے اللہ کی وحدانیت اور نبی علیہ السلام کی رسالت کے کلمات سنے، جیساکہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے۔
(۲) اذان واقامت کی آواز سن کرولادت کے وقت بچے کے قریب کا شیطان (جو اس کو چونکہ دیتا ہے جس کی وجہ سے بچہ روتا ہے) بھاگ جاتا ہے اور شیطان سے حفاظت ہوجاتی ہے وغیرہ؛اس لیے بچے کے کان میں اذان ولادت کے فوراً بعد کہنی چاہیے ،اگر کسی وجہ سے کچھ تاخیر ہوجائے تو مضائقہ نہیں؛ لیکن جس بچے کی عمر چھ سال کی ہوچکی ہو اب اس کے کان میں اذان دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
وفی حجة اللّٰہ البالغة: وَأذّن رَسُول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أذن الْحسن بن عَلیّ حِین وَلدتہ فَاطِمَة بِالصَّلَاة․أَقُول: السِّرّ فِی ذَلِک مَا ذکرنَا فِی الْعَقِیقَة من الْمصلحَة الملیة، فَإِن الْأَذَان من شَعَائِر الْإِسْلَام، وإعلام الدّین المحمدی، ثمَّ لَا بُد من تَخْصِیص الْمَوْلُود بذلک الْأَذَان، وَلَا یکون إِلَّا بِأَن بِصَوَّت بِہِ فِی أُذُنہ، وَأَیْضًا فقد علمت أَنّ من خاصیّة الْأَذَان أَن یفرّ مِنْہُ الشَّیْطَان، والشیطان یُؤْذِی الْوَلَد فِی أوّل نشأتہ حَتَّی ورد فِی الحَدِیث " إِن استہلالہ لذَلِک․ (حجة اللہ البالغة: ۴۴۶/۲، مصالح العقیقہ، ط: حجاز دیوبند)عن أبی رافع عن أبیہ۔ رضی اللّٰہ عنہما۔ قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أذن فی أذن الحسن بن علی حین ولدتہ فاطمة بالصلاة۔ قال الملا علی قاری۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ (حین ولدتہ فاطمة) یحتمل السابع وقبلہ․ (مرقاة: ۱۵۹/۸، باب العقیقہ، ط،: امدادیہ پاکستان)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند