عنوان: مذكور ماحول میں بچے كی صحیح پرورش والدین میں کس کے پاس ہو سکتی ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ذیل کے مسئلے پر؟ میرا سوال یہ ہے کہ ایک بچے کی دینی اور دنیاوی اعتبارسے ذیل کے ماحول میں صحیح پرورش والدین میں کس کے پاس ہو سکتی ہے؟ میری شادی کو ۱۸ مہینے ہو چکے ہیں اور میرا بچہ ۵ مہینے کا ہوچکا ہے۔ میری بیوی اور اسکے گھروالوں نے میرے بچے سے ملنے اور دیکھنے نہیں دیتے اور میرے اوپر بہت ظلم کر رہیں ہیں۔ میرا دل اتنا تڑپتا ہے کے میرے بچے کو ایک بار دیکھ لوں۔ اسے اپنے ہاتھوں سے اُٹھا کر پیار کروں۔ اُسکی یاد میں دن رات روتا رہتا ہوں ایسا لگتا ہے کے میں بھی کہیں یعقوب علیہ السّلام کی طرح نابینا نہ ہوجاؤں۔ میری بیوی، بچے کے پیدائش کے لیے اپنے والدین کے گھر جا کر ۷ مہینے سے واپس نہیں لوٹی۔جب وہ میرے ساتھ تھی مجھے اتنی گندی گندی گلیاں بکتی تھی۔ نعوذو باللہ۔میرے والدین اور میری بہن کو بھی اسی طرح گندی گالیاں دیتی تھی۔اس نے کبھی بھی شوہر کے حقوق ادا نہیں کیئے۔ میری ساس اور سالی مجھے بے حد ذلیل کرتی ہیں۔ اور ہمیشہ گندی گالیاں دیتی ہیں۔اور اسکے والد نے تو ہر حد پار کردی انہ نے تو بد زبانی،بد اخلاقی،بد تہذیبی کی حدیں پار کردی ہیں۔ وہ اپنے تینوں بیٹوں کے ساتھ مُجھ پر وار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے یہ سب مظالم اپنے بچے کے لئے برداشت کیا ہے۔ میرے اوپر یہ لوگ مسلسل ظلم کرتے رہے جبکہ میں نے میری بیوی کے سارے حقوق ادا کرتا رہاہوں۔ میں نے سوچا کہ اولاد کی پیدائش کے بعد وہ سدھار جائیگی لیکن وہ اور بدتمیز ہوگئی۔وہ میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اور طلاق یا خلہ بھی نہیں چاہتی وہ اپنے والدین کے گھر میں ہی رہنا چاہتی ہے۔میری بیوی کے بارے میں مزید باتیں بتا نہیں سکتا کیونکہ میری ازدواجی زندگی کے بارے میں کہنا گناہ ہوگا۔ ایسے میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی عورت ایک اچھی ماں ہو سکتی ہے جو شریعت کے خلاف کام کرتی ہو۔میں نے اسے کئی بار میرے پاس بلایا لیکن وہ آنا نہیں چاہتی۔جو شریعت میں کبیرہ گناہ ہے۔ کیا ایسی عورت جو گناہ کبیرہ کرتی ہو اور اللہ کے احکام کو نہیں مانتی۔جو بدزبان،بد اخلاق ،بدتمیز عورت ہو،ایسی عورت بچے کی صحیح اخلاقی اور دینی تربیت کیسے کرسکتی ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں،وہ ایک ماں کے فرائض و تربیت صحیح طریقے سے اس گندے ماحول میں انجام دینے سے قاصر ہے۔ میری بیوی اور بچے کی ذمہ داری نبھانے کے لیے میں ہر وقت تیار ہوں اور میرے بچے کے مستقبل کے خاطر طلاق دینا نہیں چاہتا۔ اگر بچہ اُسکی ماں کے پاس اُس کے غیر اخلاقی ماحول میں رہیگا تو اُسکی صحیح پرورش اور دینی تربیت کیسے ہو پائیگی جو کے بلکل ناممکن ہے ۔ان تمام حالات کے مدِنظر شریعت نبوی کے اعتبارسے بچے کے پورے اختیارات مجھے ملے، میں اپنے بچے کو اپنی نگرانی میں صحیح پرورش اور دیکھ بھال کرنا چاہتا ہوں اور اسکی ماں جب چاہے اپنے بچے سے مل سکتی ہے۔
برائے کرم اس مسئلہ کا حل ارسال فرما کر ممنون فرمائیں۔
جواب نمبر: 17311801-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 37-9T/B=01/1441
یہ آپ کا گھریلو اختلافی مسئلہ ہے، ایک دو بڑے آدمی بیوی کی طرف سے بلالیں اور ایک دو بڑے آدمی کو اپنی طرف سے بلالیں۔ اور آپ دونوں فریق ان کو اختیار دیدیں کہ وہ فیصلہ دونوں کی بات سن کر کریں گے۔ وہ آپ دونوں فریق کو منظور ہوگا۔ اس طرح اپنا جھگڑا نمٹالیں۔ چونکہ آپ کا مسئلہ اختلافی صورت اختیار کر چکا ہے اختلافی اور نزاعی مسئلہ میں صرف یکطرفہ بیان پر کوئی شرعی فیصلہ لکھنا ممکن نہیں۔ اس لئے آپ کی تحریر کے ساتھ آپ کی بیوی اور سسرال والوں کی طرف سے بھی تحریر آنی چاہئے، دونوں کی تحریریں دیکھنے کے بعد ہی ہم کسی نتیجہ پر پہونچ سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند