• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 172652

    عنوان: میاں بیوی میں تفریق ہوجائے تو بچے كی پرورش كا حق كسے ہے؟

    سوال: مسئلہ یہ ہے کہ میری طلاق ہوچکی ہے، اس کا کسی غیر مرد سے چکر چل رہا تھا اس وجہ سے میں نے اس کو طلاق دیدی اور اس نے قبول کرلیا، میری ایک بیٹی ہے چار سال کی، وہ میری بیوی کے پاس ہے، میں نے اپنی بیوی سے بات کی رجوع کرنے کے لیے تو وہ واپس نہیں آنا چاہتی ہے، تم اپنی زندگی سکون سے جیو اور بیٹی مجھے دیدو، وہ کہتی ہے کہ میں جان دیدوں گی اگر بیٹی سے ملنے کے لیے آیا یا اس کو لینے کی کوشش کی، بیٹی سے ٹیلیفون پر بات کروا دیتی ہے، مگر ملنے کی اجازت نہیں دیتی ہے، بیٹی بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتی یہ میں جانتاہوں، سوال یہ ہے کہ میں اس بات سے پریشان ہوں کہ ان کے گھر کا ماحول صحیح نہیں ہے، ان کے گھر میں دوسرے لڑکوں سے چکر چلانا عام بات ہوگئی ہے ، ان کے ماں باپ سب کو معلوم ہے یہ سب ، جب میں نے اپنی بیٹی کو لینے کے لیے کہتاہوں اور اس کو حقوق دینے کے لیے اس کو اللہ کا خوف دلاتا ہوں تو اس نے مجھ سے یہ کہہ دیا ہے کہ اللہ کے یہاں وہ ذمہ دار ہے اگر غلط یا صحیح ہو میری بیٹی کے ساتھ، میں آزاد ہوں اپنے حق سے۔ اب آپ بتائیں قرآن وحدیث کی روشنی میں کہ اگر میں اپنی بیٹی سے منہ موڑ لیتاہوں اور اس کاحق ادا نہیں کرتاہوں جیسے اس کی ماں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آزاد ہوں کسی گناہ سے ،کیا میں واقع میں اللہ کے وہاں گناہ گار نہیں ہوں گا؟ مجھے صرف یہی ڈر ہے کہ جیسے میری بیوی نے اپنی زندگی خراب کی ہے کہیں میری بیٹی کی بھی زندگی خراب نہ ہو۔ مہربانی کرکے قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟میں کسی ماں سے اس کی بیٹی کو چھینا نہیں چاہتا۔

    جواب نمبر: 172652

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1327-1123/D=1/1441

    اگر زوجین کے درمیان تفریق ہو جاتی ہے اور ان کا کوئی بچہ بھی ہے تو شریعت اسلامیہ نے بچہ کی پرورش کے حق کے سلسلے میں واضح ہدایت اور احکام دیئے ہیں آپ کے معاملہ میں بچی کے سلسلہ میں شریعت اسلامیہ کا قانون یہ ہے کہ ۹/ سال کی عمر تک بچی کی پرورش کرنے کا حق ماں کو ہوگا اور ۹/ سال پورے ہو جانے کے بعد باپ کی ذمہ داری ہے کہ بچی کو اپنی پرورش اور تربیت میں رکھ کر اس کی شادی بیاہ کا بندو بست کرے۔ ۹/ سال کی عمر ہو جانے کے بعد باپ جبراً بھی بچی کو لے سکتا ہے۔ قال فی الدر: والام والجدة احق بہا حتی تحیض وغیرہما احق بہا حتی تشتہی وقدر بتسع وبہ یفتی ․․․․․․ وعن محمد ان الحکم فی الام والجدة کذالک وبہ یفتی لکثرة الفساد (الدر مع الرد: ۵/۲۶۷)

    ماں کے یہ ”کہہ دینے سے کہ تم آزاد ہو کسی گناہ سے“ آپ کے لئے بیٹی سے منہ موڑنا اور اس کی تعلیم و تربیت اور شادی کی ذمہ داریوں سے اپنے کو سبکدوش سمجھنا جائز نہ ہوگا بالخصوص جب کہ ماں کے گھر کا ماحول آپ کو اچھا نظر نہیں آرہا ہے ایسی صورت میں اپنی بچی کو ہر طرح کی برائی سے بچانا آپ کی ذمہ داری ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند