معاشرت >> تعلیم و تربیت
سوال نمبر: 169552
جواب نمبر: 169552
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:691-581/sn=7/1440
(۱) زید کے لیے اس بچے کی پرورش کرنا اس کو پالنا پوسنا تو شرعاً جائز ہے؛ لیکن گود لینے کی وجہ سے یہ بچہ زید کے حقیقی بیٹے کے درجے میں نہ ہوگا اگرچہ زید کی بہن نے باقاعدہ تحریری طور پر زید کو بچہ دیدیا ہو؛ لہٰذا اس بچے کی ولدیت میں زید کے لیے اپنا نام لکھنا شرعاً جائز نہ ہوگا، نیز بچہ کے مراہق یا بالغ ہونے پر زید کی بیوی کا اس بچے سے پردہ کرنا ضروری ہوگا، زید کے انتقال پر یہ بچہ شرعاً اس کا وارث نہ ہوگا۔
قال اللّٰہ تعالیٰ: ادْعُوہُمْ لِآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّہِ الآیة․ (سورہٴ احزاب) وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: من ادعی إلی غیر أبیہ فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین․ لا یقبل منہ صرف ولا عدل (بخاری وصحیح مسلم) وفي روح المعاني: ویعلم من الآیة أنہ لا یجوز انتساب شخص إلی غیر أبیہ وعد ذلک بعضہم من الکبائر․ اھ (۱۱/۱۴۷، بیروت)
(۲) عقیقہ میں اصل یہ ہے کہ باپ کرے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں اس بچے کا عقیقہ کرنا زید کے ذمے نہیں ہے۔
(۳) یہ بچہ اس کا شما رہوگا جس کے صلب سے یہ پیدا ہوا یعنی اس کا حقیقی باپ (زید کا بہنوئی)؛ باقی اگر زید اس کی اچھی طرح تعلیم وتربیت کرے گا تو اسے اس کا اجر ملے گا۔
(۴) نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند