• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 155548

    عنوان: كیا قولی اور تحریری فتوے میں فرق ہے؟

    سوال: کیا لکھا ہوا فتاوی اورقولی میں فرق ہوتا ہے ؟

    جواب نمبر: 155548

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:94-16/D=2/1439

    کسی شخص سے خاص معاملہ میں حکم شرعی دریافت کیے جانے پر اس معاملے کے حکم شرعی سے آگاہ کرنے کو فتوی کہتے ہیں بشرطیکہ اس کے اہل شخص کی طرف سے حکم بتلایا جارہا ہو کیونکہ کارِ افتا میں مصروف ہونے میں قابل اعتماد ہونے کے لیے فقہاء نے کچھ شرائط ذکر کی ہیں جن سے آراستہ ہوئے بغیر کوئی شخص فتوی دینے کا اہل نہیں سمجھا جائے گا۔ شرائط درج ذیل ہیں:

    (الف) وہ شخص صحیح العقیدہ ہو اور اہل سنت والجماعت کے زمرے میں شامل ہو۔

    (ب) اس شخص نے علوم دینیہ معتمد علماء سے حاصل کیا ہو۔

    (ج) کسی قابل اعتماد ماہر فقیہ ومفتی کے پاس رہ کر فتوی نویسی کا سلیقہ نیز اس کے اصول وضوابط کو باضابطہ سیکھا ہو۔

    (د) زمانہ کے عرف اور اہل زمانہ کے احوال سے واقف ہو۔

    (ھ) وہ شخص خود صاحب بصیرت ہو، نیز جدید و دقیق مسائل کے سمجھنے میں بیدار مغز ہونا اور اخذ واستنباط کی صلاحیت کا حامل ہونا بھی ضروری ہے۔

    (و) وہ شخص ظاہر اعمال حتی کہ وضع قطع میں بھی شریعت کا پابند ہو، نیز تقوی وانابت الی اللہ کی صفت سے آراستہ ہو۔

    ایسا شخص حکم شرعی خواہ لکھ کر دے یا زبانی بتلائے فتوی ہی کے درجہ میں ہے، البتہ تحریر میں چونکہ سوال وجواب دونوں کی شروط وقیود مذکور ہوتے ہیں اس لیے فتوے کی زبان اور الفاظ محفوظ ومقید ہوجاتے ہیں اور اشتباہ کی گنجائش نہیں رہتی ہے اس لیے عرف میں فتوی تحریراً ہی مروج ہے۔ قال شرط المفتي کونہا مکلفًا مسلمًا ثقةً مامونًا متنزہًا عن أسباب الفسق وخوارم المروء ة فقیہ النفس سلیم الذہن، رَصیف الفکر، صحیح التصرف والاستنباط، متیقظًا (شرح عقود رسم المفتی نقلہ عن شرح المہذب للنووي)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند