• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 153017

    عنوان: مدرسہ کھولنے اور چلانے کے کن شرائط و ضوابط کی پابندی کرنی چاہئے ؟

    سوال: گذارش یہ ہے کہ آپ سے فتویٰ۔ اصول قوانیں معلوم کرنا ہے ، ایک صاحب اور ان کی بیوی ایک نسوان مدرسہ کھولنا چاہتے ہیں ۔ مگران میں کوئی بھی عالم نہیں ہیں نہ اتنی قابل ہیں کہ مدرسہ چلا سکے ۔ وہ جماعت کا کام کرتی ہیں اور تھوڑا بہت بیان کرتی ہیں ۔ اگر ایسی عورت ہمارے بچوں اور عورتین کو پڑھاتی ہیں تو ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ آپ براے مہربانی بتائیں کہ : (1) کیا کوئی بھی پڑھا سکتا ہے یا عالم دین ہونا ضروری ہے ؟ (2) مدرسے کو کسی کی سرپرستی عالم یا مدرسہ کی ضروری ہے ؟ (3) عالم پڑھے بنا اپنے کو عالم کہنا کیسا ہے ؟ (4) مدرسہ کھولنے اور چلانے کے کن شرائط و ضوابط کی پابندی کرنی چاہئے ؟

    جواب نمبر: 153017

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1078-1312/L=11/1438

    (۱) ہرکتاب کو پڑھانے کے لیے مکمل عالم ہونا ضروری نہیں ہے،اصل یہ ہے کہ جو کتاب آدمی پڑھا رہا ہے اس کتاب کو پڑھانے کی اس میں لیاقت ہے یا نہیں؟اس نے وہ کتاب پڑھ رکھی ہے یاپڑھے بغیر ہی اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اس کتاب کو پڑھا سکتاہے یا نہیں؟البتہ اگر کسی نے نہ تو وہ کتاب پڑھ رکھی ہو اور نہ ہی اس کے اندر اس کتاب کو پڑھانے کی صلاحیت ہو تو اس کے لیے اس کتاب کا پڑھانا درست نہ ہوگا ،ایسے شخص کے ذمہ اس کتاب کو کرنا طلبہ کے ساتھ خیانت ہوگی۔

    (۲) مدرسہ کو کسی عالم کی سرپرستی میں چلانا چاہیے تاکہ نظام درست اور شریعت کے مطابق چل سکے۔

    (۳)عالمیت کا کورس پڑھے بغیر اپنے آپ کو عالم کہنا درست نہیں۔

    (۴) مدرسہ کھولنے اور چلانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معتمد اور دیندارہو اس کے اندر مدرسہ چلانے کی صلاحیت ہواور چونکہ مدرسہ میں علومِ دینیہ کی تعلیم دی جاتی ہے؛اس لیے بہتر ہے کہ ایسا شخص باقاعدہ کسی مدرسے سے فارغ بھی ہو تاکہ نظام کو چلانا آسان ہو،اگر مدرسہ چندہ سے چلایا جارہاہوتو چندہ وصول کرنے اور اس کو صحیح مصرف میں خرچ کرنے کا علم بھی ہو،مدرسہ چلانے والا ایسا شخص ہو جو بااخلاق ہو اور لوگوں کے ساتھ ان کے احوال کے مطابق عمل کرنے والا ہووغیرہ اور اگر وہ مدرسہ لڑکیوں کے لیے خاص ہے تواس کے چلانے کے لیے مزید درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا وہ شرائط درج ذیل ہیں:

    (۱) خواتین کی تعلیم گاہیں اور اسکول وکالج صرف اور صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں،مخلوط تعلیم نہ ہو اور مردوں کا ان تعلیم گاہوں میں آنا جانا اورعمل دخل ہرگز نہ ہو، مدرسہ کا جائے وقوع فتنہ فساد اور اس کے امکان سے بھی محفوظ ہو۔

    (۲) ان تعلیم گاہوں تک خواتین کی آمد ورفت کا شرعی پردہ کے ساتھ ایسا محفوظ انتظام ہو کہ کسی مرحلہ میں بھی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔

    (۳) نیک کردار، پاک دامن عورتوں کو تعلیم کے لیے مقرر کیا جائے، اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں تو بدرجہٴ مجبوری نیک صالح اور قابل اعتماد مردوں کو مقرر کیا جائے جو پس پردہ خواتین کو تعلیم دیں۔

    (۴) مدرسہ کے حالات کی کڑی نگرانی اور مفاسد وفتن کی روک تھام کا اہتمام بہت ہی اعلیٰ درجہ کا ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند