معاشرت >> تعلیم و تربیت
سوال نمبر: 149983
جواب نمبر: 149983
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 643-603/sd=7/1438
مسئلہ معلوم کرنے میں اصل یہ ہے کہ کسی قابل اعتماد عالم یا مفتی سے معلوم کیا جائے، آدمی کو مسائل اور شریعت سے متعلق امور کی تحقیق کے لیے کسی معتمد عالم یا مفتی سے رابطہ رکھنا چاہیے اور اگر خود پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہو، تو معتبر کتاب کے ذریعے خود بھی مسئلہ کا حکم معلوم کیا جاسکتا ہے، اسی طرح کسی معتمد دار الافتاء میں سوال بھیج کر بھی فتوی حاصل کیا جاسکتا ہے، انٹر نیٹ، واٹسپ وغیرہ کے ذریعے مسائل کی تحقیق میں بے احتیاطی پائی جاتی ہے، اس میں عامی شخص کے لیے صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے ؛ ہاں اگر واٹسپ پر کسی معتبر عالم دین یا مفتی سے رابطہ ہو، تو اُس سے مسئلہ معلوم کرنے میں مضائقہ نہیں، حاصل یہ ہے کہ ہر طرح کے مسئلہ کی تحقیق کے لیے عالم یا مفتی کے پاس جانا ضروری نہیں ہے، روز مرہ کے عمومی مسائل معتبر کتاب کے ذریعہ خود بھی معلوم کیے جاسکتے ہیں،لہذا آپ کے ساتھی کی بات علی الاطلاق صحیح نہیں ہے، مسئلہ کی تحقیق کے لیے کسی عالم یا مفتی کے پاس خود جانا اس بنیاد پر کہ جتنی زیادہ مشقت ہوگی، اتنی ہی نورانیت ہوگی، اس اصول پر صورت مسئولہ کو منطبق کرنا صحیح نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ آسان طریقہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے تھے، لہٰذا اگر عالم کے پاس جائے بغیر کسی معتبر و مستند طریقے سے مسائل کی تحقیق ہوجائے، تو اُس پر اعتماد کر کے عمل کر لینا چاہیے، ہاں علمائے دین کی صحبت اور اُن سے استفادے کے لیے کبھی کبھی اُن کی خدمت میں حاضری مستقل اہمیت کی چیز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند