• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 10787

    عنوان:

    کیا اسلام میں علم سے مراد دنیا کا علم بھی ہے یا پھر صرف دین کا علم؟ جیسے آتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلما ن مرداور عورت پر فرض ہے۔ تو کیا میٹرک، ایف اے، بی اے کرنا مردوں اور عورتوں پر فرض ہے ؟ یا اگر کوئی عورت دنیا کا کچھ بھی علم حاصل نہیں کرتی یعنی وہ پہلی کلاس میں بھی نہیں جاتی لیکن دین کا علم حاصل کرتی ہے تو کیا وہ گناہ گار ہے؟ اور دوسری عورت جو ایم اے، ایم بی اے، ایم بی بی ایس کرتی ہے لیکن دین کا پتہ نہیں تو کیا وہ گناہ گار ہے؟ اور علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے اس مفہوم میں اس کو بھی واضح فرماویں؟

    سوال:

    کیا اسلام میں علم سے مراد دنیا کا علم بھی ہے یا پھر صرف دین کا علم؟ جیسے آتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلما ن مرداور عورت پر فرض ہے۔ تو کیا میٹرک، ایف اے، بی اے کرنا مردوں اور عورتوں پر فرض ہے ؟ یا اگر کوئی عورت دنیا کا کچھ بھی علم حاصل نہیں کرتی یعنی وہ پہلی کلاس میں بھی نہیں جاتی لیکن دین کا علم حاصل کرتی ہے تو کیا وہ گناہ گار ہے؟ اور دوسری عورت جو ایم اے، ایم بی اے، ایم بی بی ایس کرتی ہے لیکن دین کا پتہ نہیں تو کیا وہ گناہ گار ہے؟ اور علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے اس مفہوم میں اس کو بھی واضح فرماویں؟

    جواب نمبر: 10787

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 236=236/م

     

    علم تو درحقیقت علم دین ہی ہے، دنیاوی علم تو ایک ہنر ہے، اسی لیے جس حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ ]علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے[ اس سے مراد علم دین ہے، بنا بریں اگر کوئی عورت دنیا کا کچھ بھی علم حاصل نہیں کرتی، لیکن دین کا علم حاصل کرتی ہے تو وہ گنہ گار نہیں، اس کے برعکس جو عورت ایم اے، ایم بی بی ایس کرتی ہے، لیکن دین کا علم بالکل حاصل نہیں کرتی، یہاں تک کہ اس کو حلال وحرام اور فرائض وواجبات کا بھی پتہ نہیں تو وہ دین کا ضروری علم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے گنہ گار ہوگی۔ ]علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے[ اس کا مفہوم یہی ہے کہ حصول علم کی خاطر اگر دور دراز علاقوں کا سفر کرنا پڑے تو بھی صعوبتوں کو برداشت کرکے طلب علم کے لیے باہر جانا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند