• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 610020

    عنوان:

    توبہ کا مکمل طریقہ کیا ہے؟

    سوال:

    کیا توبہ سے ہر قسم کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ؟

    جواب نمبر: 610020

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 546-204/TD-Mulhaqa=8/1443

     بعض گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور بعض کا حقوق العباد سے ، گناہ کی نوعیت کے اعتبار سے توبہ کے طریقے میں بھی تفصیل ہے، چند ضروری امور لکھے جاتے ہیں:

    (الف)بنیادی طور پر حقوق کی دو قسمیں ہیں: حقوق اللہ اور حقوق العباد، پھرحقوق اللہ کی دو قسمیں ہیں: منہیات، یعنی جن امور سے منع کیا گیا ہےاور مامورات ، جن کو طاعات بھی کہتے ہیں، یعنی : وہ امورجن کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور نہ کرنے سے گناہ ہوتا ہے اور حقوق العباد کی بھی دو قسمیں ہیں: حقوق مالی اور حقوق غیر مالی۔

    (ب) منہیات کے قبیل کے گناہ توبہ کرنے سے معاف ہوجاتے ہیں ، مثلا: کوئی شراب پیتا ہے یا بدنظری میں مبتلا ہے، پھر توبہ کرلے تو ایسے گناہ سب معاف ہوجاتے ہیں بشرطیکہ سچی توبہ کرے اور سچی توبہ کے لیے تین شرطیں ہیں:ندامت و شرمندگی ہو ،جن گناہوں سے توبہ کی ہے، اس کو چھوڑ دیا جائے اورآئندہ اس گناہ کے نہ کرنے کا پختہ عزم ہو ، اگر ایک مسلمان اس طرح توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو بخش دیتے ہیں خواہ اس نے کتنے ہی بڑے گناہ کیے ہوں ۔

    (ج) حقوق اللہ کی دوسری قسم، یعنی طاعات اگر چھوٹ گئی ہیں، مثلا: فرض نمازیں چھوٹ گئیں یا زکات فرض ہونے کے باوجودنہیں دی یا فرض روزے نہیں رکھے یا قربانی واجب ہونے کے باوجود نہیں کی، تو ان کے لیے صرف زبان سے توبہ کافی نہیں ہے؛ بلکہ ان کی قضاء ضروری ہے، اگر بندہ قضاء کرتا رہا ہے؛ مگر کچھ رہ گئیں تو امید ہے کہ حق تعالی معاف فرمادیں گے ۔

    (د) حقوق مالی کی توبہ یہ ہے کہ ان کو اداء کیا جائےیا معاف کرایا جائے، مثلا: اگر کسی شخص کا مال چوری، غصب وغیرہ کے ذریعے کھالیا تو جتنا مال کھایا ہے، اتنا صاحب حق کو لوٹانا ضروری ہے، اس کے بغیر معافی نہیں ہوگی اور اگر صاحب حق انتقال کرچکا ہو تو اس کے ورثاء تک پہنچانا ضروری ہے اور اگر صاحب حق کا پتہ نہ ہو تو اس کی طرف سے غریبوں کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔

    (ھ)حقوق غیر مالی کی توبہ یہ ہے کہ صاحب حق سے معاف کرایا جائے، مثلا: اگر کسی شخص کا دل دکھایا ہے، تو اس سے معافی مانگے اور اگر ایسے شخص کا علم نہیں ہوسکے یا انتقال ہوچکا ہوتواس کے لیے کثرت سے دعا ئےخیر کی جائے اور ایصال ثواب کیا جائے، انشاء اللہ حق تعالی اس کو راضی فرمادیں گے۔

    (و) چھوٹی ہوئی طاعات اور حقوق مالی کے سلسلے میںوصیت کرکے رکھنا چاہیےکہ نامعلوم کب انتقال ہوجائے۔حاصل یہ ہوا کہ منہیات کے قبیل کے گناہ تو محض توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں اور طاعات اور حقوق العباد کے قبیل کے گناہ محض توبہ سے معاف نہیں ہوتے ، ایسے گناہوں سے توبہ کا طریقہ ماقبل میں تفصیل سے لکھدیا گیا ۔اس طریقے کو توبہ کا تفصیلی طریقہ بھی کہا جاتا ہے ۔

    قال اللّٰہ تعالی: یا أیہا الذین آمنوا توبوا إلی اللّٰہ توبۃ نصوحاً۔۔۔۔۔ قال الآلوسي: أخرج ابن مردویہ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال معاذ بن جبل: یا رسول اللّٰہ ! ما التوبۃ النصوح ؟قال: أن یندم العبد علی الذنب الذي أصاب، فیعتذر إلی اللّٰہ تعالی، ثم لا یعود إلیہ کما لا یعود اللبن إلی الضرع۔ وقال نقلاً عن الإمام النووي: التوبۃ ما استجمعت ثلاثۃ أمور:أن یقلع عن المعصیۃ، وأن یندم علی فعلہا، وأن یعزم عزما جازماً علی أن لا یعود إلی مثلہا أبداً ۔۔۔۔۔( روح المعاني: ۲۸؍۱۵۹، ط: دار إحیاء التراث العربي ) أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ۔ ((التوبۃ::۱۰۴)قال الامام الغزالی: اعلم أن الواجب على المغتاب أن يندم ويتوب ويتأسف على ما فعله ليخرج به من حق الله سبحانه۔۔۔وقالت عائشة رضي الله عنها لامرأة قالت لأخرى أنها طويلة الذيل قد اغتبتيها فاستحليها فإذن لا بد من الاستحلال إن قدر عليه فإن كان غائبا أو ميتا فينبغي أن يكثر له الاستغفار والدعاء ويكثر من الحسنات۔ ( احیاء علوم الدین : ۳/۵۳، ۱۵۴، کتاب آفات اللسان ، دار المعرفۃ، بیروت ) قال ابن عابدین: قال الإمام الغزالي وغيره وقال أيضا: فإن غاب أو مات فقد فات أمره، ولا يدرك إلا بكثرة الحسنات لتؤخذ عوضا في القيامة۔ ( رد المحتار: ۶/۴۱۱، دار الفکر، بیروت نیز دیکھیے: خیر الارشاد لحقوق العباد ، وعظ : حکیم الامت حضرت تھانوی ۔ ناقل : حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ ،نیز دیکھیں:وعظ : اول الاعمال ، حکیم الامت حضرت تھانوی ، ناقل : حضرت مولانا حکیم مصطفی بجنوری ؒ ، ماہنامہ الامداد، لاہور،آپ کے مسائل اور ان کا حل : ۲/۳۸۶، مکتبہ لدھیانوی، فتاوی محمودیہ: ۲۹/۳۹۸، میرٹھ ۔)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند