• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 609448

    عنوان:

    توبہ کے بعد بھی معاف نہ کیے جانے کا خیال آنا؟

    سوال:

    سوال : 1)حضرت صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے ۔ حضرت صاحب میرا سوال یہ ہے کہ میں نے ایک جھوٹی قسم کھائی تھی اور اس گناہ سے میں نے اللہ تعالیٰ سے روروکے سچی پکی توبہ کی ہے کہ آئندہ ایسی غلطی ساری عمر نہیں کروں گا تو حضرت صاحب میں نے توبہ کیا ہے اور پھر بھی میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ شایداللہ تعالیٰ نے مجھے معاف نہیں کیا ہے تو حضرت صاحب میرا ایک تبلیغی دوست ہے تو اس کو میں نے کہا کہ میں نے گناہ کبیرہ سے سچی توبہ کیا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرتا ہے ؟تو اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ "میں توبہ کو قبول کرنے والا اور دوسری جگہ ارشاد ہے کہ میں بخشنے والا ہوں" تو میرے دوست نے کہا کہ اگر کوئی بندے نے توبہ کیا اور پھر بھی وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف نہیں کیا ہے تو ان کا یہ دوبارہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ اللہ پاک نے مجھے معاف نہیں کیا ہے یہ تو نعوذبااللہ، اللہ تعالیٰ کا توبہ والی قرآنی آیات سے انکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں توبہ کو قبول کرنے والا ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف نہیں کیا ہے ، تو حضرت صاحب ان کا یہ جواب درست ہے کہ یہ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کے توبہ والی آیتوں سے انکار ہے ؟

    . 2)توبہ کرنے کے دنیا وی اور اخروی فائدے کیا ہے ؟ حضرت صاحب ہماری اصلاح کے لئے دو تین فائدے لکھیں۔ جزاکم اللہ

    3) شریعت کے مطابق نوکری کرنے میں برکت ہوتی ہے یا کاروبار کرنا ٹھیک ہے ؟

    4) اگر کپڑوں پر پیشاب کے قطرے لگ جائے اور جگہ صحیح معلوم نہ ہو تو ان کو کیسے پاک کیا جائے ؟

    اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند کو اور بھی ترقی دے دیں اور ان میں موجود علماء کرام کو اچھی صحت اور اللہ تعالیٰ ان کو حوشحال والی زندگی نصیب کرے ۔ آمین

    جواب نمبر: 609448

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 710-176T/D=06/1443

     توبہ صدقِ دل سے اللہ کے سامنے رونے، اور معافی مانگنے کا نام ہے، جس کی شرط یہ ہے کہ: (الف) آدمی اس گناہ پر نادم اور شرمندہ ہو۔ (ب) گناہ کو بالکلیہ ترک کردے۔ (ج) آئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کا پختہ عزم کرلے۔ (د) اگر اتفاق سے پھر وہی گناہ سرزد ہوجائے تو بہ کرلے، اس طرح سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد دل میں یقین رکھے کہ اللہ تعالی نے اس کا گناہ معاف کردیا ہوگا، کسی توبہ کرنے والے کے دل میں یہ کھٹک ہونا کہ اللہ تعالی نے معاف نہ کیا ہوگا یہ وسوسے کے درجے کی چیز ہے، جس پر امید ہے کہ موٴاخذہ نہ ہو، لیکن یہ توبہ والی آیتوں کا انکار نہیں، حدیث میں آتا ہے: گناہ سے توبہ کرنے والا شخص ایسا ہے جیسے اس کے پاس کوئی گناہ ہی نہیں، التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (الحدیث)

    (۲) الف: توبہ کرنے سے گناہ کی ظلمت رفع ہوتی ہے۔ (ب) قلب کی سیاہی زائل ہوتی ہے، قلب میں نورانیت پیدا ہوتی ہے۔ (ج) فاسق و بدعمل لوگوں کی فہرست سے اس کا نام کاٹ کر صالحین، ابرار، نیکوکار لوگوں کی فہرست میں نام درج کردیا جاتا ہے۔ (د) انابت الی اللہ میں ترقی ہوتی ہے، اور اعمال صالحہ کی توفیق بڑھ جاتی ہے۔

    (۳) نوکری ہو یا کاروبار شریعت کے مطابق کرنے کی صورت میں حلال آمدنی کا ذریعہ ہے، جس کا آدمی کو موقع مل جائے، اور اس کی طبیعت کے موافق آجائے اسے اختیار کرے، خواہ نوکری ہو، یا کاروبار، البتہ حلال آمدنی کی فکر کرنا، حرام سے بچنے کی کوشش کرنا، اور گناہوں سے اجتناب کرنا دونوں جگہ ضروری ہے۔

    (۴) جس جگہ پیشاب کے قطرے لگے ہیں، قرائن سے جگہ متعین نہ ہوسکے، اور کپڑا بڑا ہے، پورے کو دھونے میں دشواری ہے تو کسی ایک کونے کو دھولے، ان شاء اللہ کپڑا پاک ہوجائے گا۔

    وغسل طرف ثوب، أو بدن أصابت نجاسة محلاًّ منہ ونسي المحل، مطہر لہ وإن وقع الغسل بغیر تحرٍّ، وہو المختار، (الدر مع الرد: 1/534، زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند