• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 603485

    عنوان:

    سلام کے جواب دینے کے بعد دوبارہ اس کو سلام کرنا یا جواب نہ دیکر سلام كرنا

    سوال:

    محترم مفتیان کرام امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے مجھے یہ مسئلہ معلوم کرنا ہے کہ آج کل لوگوں میں یہ کثرت سے دیکھا جاتا ہے کہ ایک آدمی سامنے والے کو سلام کرتا ہے تو سامنے والا سلام کا جواب دیکر متصلا اس کو سلام کرتا ہے جس نے پہلے سلام کیا تھا، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس نے سامنے والے کو سلام کرتا ہے تو سامنے والا سلام کا جواب نہ دیکر سلام کرتا ہے ، اب پوچھنا یہ ہے کہ

    (۱) پہلی صورت میں سلام کا جواب دیکر دوبارہ اس کو سلام کرنا یہ جائز ہے یا نہیں، نیز اگر سامنے والا دوبارہ سلام کرتا ہے تو پہلے سلام کرنے والا پر جواب دینا ضروری ہے یا نہیں، کیونکہ اس نے تو پہلے اس کو سلام دے چکا اور سلام اور جواب سلام دونوں کا مطلب بھی ایک ہوتا ہے ، اسی طرح

    (۲) دوسری صورت میں جب پہلے سلام کرنے والا کو سامنے والا جواب نہ دیکر سلام کرتا ہے تو پہلے سلام کرنے والا پر جواب دینا ضروری ہے یا نہیں، کیونکہ سامنے والا تو اس کا سلام جواب نہیں دیا۔

    (۳) نیز مجھے جہاں تک معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام میں سے جب کسی کو سلام کرتے تو صحابہ کرام جواب دیکر دوبارہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام نہیں کیا کرتے تھے ، تو آب یہ دونوں صورتیں بدعت میں شامل ہوگی یا نہیں ؟

    جواب نمبر: 603485

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:555-101T/N=8/1442

     (۱):اگر کوئی شخص کسی کے سلام کا جواب دے کر فوراً خود سلام کرتا ہے تو یہ بے محل سلام ہے اور دوسرے پر اس سلام کا جواب واجب نہیں؛ کیوں کہ ایک سلام کے بعد دوسرے سلام کے لیے دونوں کے درمیان ملاقات کا اختتام یا جدائیگی ضروری ہے اگرچہ وہ تھوڑی دیر کی ہو اور کسی درخت یا دیوار کے ذریعے ہو۔

    وإن لقیھم وفارقھم في الیوم مراراً وحالت بینھم وبینہ شجرة أو جدار جدَّد السلام؛ لأن ذلک یوجب الرحمة، وینوي بالسلام تجدید عھد الإسلام أن لا ینال الموٴمن بأذاہ في عرضہ ومالہ، فإذا سلم علی الموٴمن حرم علیہ تناول عرضہ ومالہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع وغیرہ، ۹: ۵۹۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند نقلاً عن فصول العلامي)۔

    في فتاوی آھو: رجل أتی قوماً فسلم علیھم وجب علیھم ردہ، فإن سلم ثانیاً في ذلک المجلس لم یجب علیھم ثانیاً …کذا في التتارخانیة (الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب السابع في السلام وتشمیت العاطس، ۵: ۳۲۵، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    (۲): اگر کسی نے السلام علیکم کے جواب میں جواب کی نیت سے السلام علیکم ہی کہہ دیا تو یہ سلام کا جواب ہوجائے گا ، یعنی: واجب ادا ہوجائے گا؛ البتہ افضل وعلیکم السلام کہنا ہے، پس جب کسی نے سلام کے جواب میں جواب کی نیت سے السلام علیکم کہا تو دوسرے کو اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں؛ کیوں کہ یہ خود جواب ہے، سلام نہیں ہے؛ البتہ اگر ہر دو نے ایک ساتھ السلام علیکم کہا تو چوں کہ یہ دونوں سلام ہیں اور سلام کی نیت سے ایک ساتھ کہے گئے ہیں؛ لہٰذا ہر ایک پر دوسرے کے سلام کا جواب واجب ہوگا۔

    قال في التاترخانیة:…ویأتي بواو العطف في ”وعلیکم“، وإن حذفھا جاز، وإن قال المبتدیٴ: ”سلام علیکم“ أو ”السلام علیکم“ فللمجیب أن یقول في الصورتین: ”سلام علیکم“ أو ”السلام علیکم“؛ ولکن الألف واللام أولی اھ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع وغیرہ، ۹: ۵۹۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    وقدمنا أن للمجیب أن یقول في الصورتین: ”سلام علیکم“ أو ”السلام علیکم“، ومفادہ أن ما صلح للابتداء صلح للجواب، ولکن علمت ما ھو الأفضل فیھما (المصدر السابق، ص: ۵۹۶)۔

    ویأتي بواو العطف في قولہ: ”وعلیکم السلام“، وإن حذف واو العطف فقال: ”علیکم السلام“ أجزأہ، ولو قال المبتدیٴ: ”سلام علیکم“ أو قال: ”السلام علیکم“ فللمجیب أن یقول في الصورتین: ”سلام علیکم“، ولہ أن یقول: ”السلام علیکم“؛ ولکن الألف واللام أولی کذا في التتارخانیة (الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب السابع في السلام وتشمیت العاطس، ۵: ۳۲۵، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    فإن سلما معاً یَردُّ کل واحد کذا في الغیاثیة (المصدر السابق)۔

    (۳): پہلی صورت عام طور پر اُس وقت پیش آتی ہے، جب کہ آدمی پہلے سلام کا جواب سامنے والے کو نہ پہنچان کر دیتا ہے اور دوسری بار وہ جو سلام کرتا ہے، وہ پہنچان کر سلام کرتا ہے اور ایسا لوگ لا علمی میں کرتے ہیں؛ لہٰذا لوگوں کو مسئلہ بتانا چاہیے کہ پہلا سلام وجواب کافی ہے، پہنچاننے کے بعد دوبارہ سلام کی ضرورت نہیں۔ اور دوسری صورت کے بارے میں اوپر لکھا جاچکا کہ جواب کی نیت سے السلام علیکم کہنا بھی درست ہے اور اگر دونوں ایک ساتھ سلام کریں تو ہر ایک پر دوسرے کے سلام کا جواب واجب ہوگا، اس میں کسی پر بدعت کا حکم لگانے کی ضرورت نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند