• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 59569

    عنوان: اگر تعویزلٹکانا گناہ ھے ،تو پھر یہ مولانہ حضرات کیوں کرتے ہیں؟کیا ان کو اس گناہ کو کیا سمجھتے ہیں؟

    سوال: براے کرم میں تعویز کے بارے میں معلومات دیجے ۔ اگر تعویزلٹکانا گناہ ھے ،تو پھر یہ مولانہ حضرات کیوں کرتے ہیں؟کیا ان کو اس گناہ کو کیا سمجھتے ہیں؟ عبداللہ بن معسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے سناہے کہ: ((إِنَّ الرُّقی والتَّمَائِمَ والتَّولةَ شِرکٌ)) جنتر ، منتر، تعویذ اور گنڈا شرک ہے ۔

    جواب نمبر: 59569

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 524-489/Sn=8/1436-U اگر ”تعویذ“ کو نافع بالذات نہ سمجھا جائے تو ایسا تعویذ جس میں مباح ومسنون ادعیہ، اسمائے الٰہی، آیاتِ قرآنیہ لغتِ مفہومہ میں لکھی ہوئی ہوں لٹکانا گناہ نہیں؛ بلکہ جائز ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ”سنن ابوداوٴد“ میں مروی ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک دعا کو کسی چیز پر لکھ کر ناسمجھ چھوٹے بچوں کے گلے میں لٹکادیا کرتے تھے عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ أن سول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- کان یعلمہم من الفزع کلمات: ”أعوذ بکلمات اللہ التامّة من غضبہ وشرّ عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضورن، وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعْلقہ علیہ (أبوداوٴد، رقم: ۳۸۹۳، باب کیف الرقی) اگر کوئی شخص تعویذ کو (طریقہٴ علاج کے بہ جائے) نافع وموٴثر بالذات سمجھے یا تعویذ شرکیہ یا کفریہ الفاظ پر مشتمل ہو تو اسے لٹکانا قطعا جائز نہیں ہے، آپ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی جو روایت نقل کی ہے اس میں اس طرح کے تعویذ گنڈے وغیرہ سے منع کیا گیا جس میں شرکیہ یا کفریہ چیزیں ہوتی ہیں یا لوگ اسے موٴثر بالذات سمجھ کر استعمال کرتے ہیں، چنانچہ مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ صحابہٴ کرام نے اللہ کے رسول کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم لوگ زمانہٴ جاہلیت میں تعویذ گنڈے (رقیہ) کیا کرتے تھے، (اب) آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ تو اللہ کے رسول نے فرمایا: ”اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک“ یعنی اپنے رقیوں (تعویذ گنڈوں) کو میرے سامنے پیش کرے، رقیہ میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرکیہ کوئی چیز نہ ہو (مسلم، رقم: ۱۷۲۷، باب لا بأس بالرقی الخ)․ (نیز دیکھیں: مرقاة: ۷/۲۸۸۰، بیروت، رد المحتار، ۹/۵۳۳، زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند