• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 52747

    عنوان: تعویذ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شرک ہے؟ حوالے کے ساتھ جواب دیں۔

    سوال: تعویذ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شرک ہے؟ حوالے کے ساتھ جواب دیں۔

    جواب نمبر: 52747

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1125-903/B=7/1435-U جس تعویذ میں شرکیہ کلمات لکھے گئے ہوں اس کا لکھنا اور اس کا پہننا بلاشبہ سب کے نزدیک شرک ہے، اور ناجائز ہے۔ لیکن ایسا تعویذ جو کلمات شرک سے پاک وصاف ہو، مثلاً قرآن کی آیتیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعائے ماثورہ وغیرہ لکھے ہوئے ہوں تو اس کا لکھنا، پہننا بلاشبہ سب کے نزدیک درست ہے۔ ترمذی شریف ج۲ ص۲۶ میں ہے: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَوِّذُ الحَسَنَ وَالحُسَیْنَ یَقُولُ: أُعِیذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّةٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّةٍ ، وَیَقُولُ: ہَکَذَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یُعَوِّذُ إِسْحَاقَ وَإِسْمَاعِیلَ۔ اور ابوداوٴد شریف ج۲ ص۹۷ میں ہے: وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ․ قال علي القاري المکي في المرقاة شرح المشکاة (ج۸ ص ۳۶۱) أما ما کان من الآیات القرآنیة، والأسماء والصفات الربانیة، والدعوات المأثورة النبویة، فلا بأس، بل یستحب سواء کان تعویذا أو رقیة أو نشرة․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند