• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 52260

    عنوان: كیا تعویذ پہننا درست ہے؟

    سوال: (۱) میرا سوال یہ ہے کہ کیا تعویذ پہننا جائزہے ، ایسا کرنا شرک تو نہیں ہے؟ اس کے حوالے میں جو حدیث پیش کی جاتی ہے اس میں بچوں کا ذکر ہے کہ جو دعا پڑھ نہیں سکتے تھے تو ان کے گلے میں باندھ دی جاتی تھی۔ مگر جو بندہ پڑھ سکتاہو ، کیا اس کے لیے تعویذ پہننا جائز ہے؟ (۲) کیاگھر میں یا کمرے میں جنات سے حفاظت کے لیے تعویذ بنا کر دیوار پہ لگایا جاسکتاہے؟ جب کہ کمرے میں قرآن پاک موجود ہیں تو کیا اس کی برکت سے جنات سے حفاظت نہ ہوجائے گی ؟ دیوار پہ تعویذ لگانا ضروری ہے یا اگر کوئی ایسا کرتاہے تو کیا یہ ناجائز اور شرک تو نہیں؟ حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ جزا ک اللہ

    جواب نمبر: 52260

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 875-288/L=7/1435-U (۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً رقیے کی اجازت دی ہے لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ اس لیے بطور رقیہ تعویذ کا استعمال جائز ہوگا بشرطیکہ وہ تعویذ آیاتِ قرآنیہ اسمائے حسنی وغیرہ پر مشتمل ہو اور اس کے معنی درست اورمعلوم ہوں نیز اس کو موٴثر بالذات نہ سمجھا جائے، تعویذ میں جس طرح پڑھ کر دم کرنا یا صرف پڑھنا جائز ہے اسی طرح قرآنی آیات غیرہ کو کسی کاغذ پر لکھ کراس کو باندھنا یا پہننا بھی جائز ہے یہ شرک نہیں ہے، علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں وأما قول ابن عربي: السنة في الأسماء والقرآن الذکر دون التعلیق ممنوع (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں بڑوں کے گلے میں تعویذ باندھنے کی نفی نہیں ہے اس لیے بڑوں کے شرائط مذکورہ کی رعایت کرتے ہوئے تعویذ پہننا جائز ہوگا۔ (۲) قرآن کا موجب برکت ہونا اپنی جگہ مسلم ہے، البتہ شیطان سے نجات پانے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ دینا ثابت ہے، یہ روایت بیہقی میں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: وأخرج البیہقي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضي اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․ (دلائل النبوة ما یذکر من حرز أبی دجانة: ۷/۱۱۸) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسماء کہف کے اسماء سے مختلف اشیاء کا علاج منقول ہے، قال النیشاپوری عن ابن عباس رضي اللہ عنہ أن أسماء الکہف تصلح للطلب والہرب وإطفاء الحریق تکتب في خرقة ویرمی بہا في وسط النار ولبکاء الطفل تکتب وتوضع تحت رأسہ في المہد وللحرث تکتب علی القرطاس وترفععلی خشب منصوب في وسط الزرع․․․ (حاشیة جلالین: ۲۴۳) حاصل یہ ہے کہ قرآن کا موجب برکت ہونا مسلم ہے مگر تعویذ سے سبب کے درجے میں فائدہ ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا یہ حدیث وآثار سے ثابت ہے اس کو شرک نہیں کہا جاسکتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند