متفرقات >> دعاء و استغفار
سوال نمبر: 36154
جواب نمبر: 36154
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 341=202-3/1433 (۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام میں فرق یہ ہے کہ درود میں لفظ صلاة اور سلام میں لفظ سلام مذکور ہوتا ہے، نیز عام موٴمنین کی طرف صلاة کا مفہوم دعاء اور مدح وثناء کا مجموعہ ہے اور سلام میں سلامتی کی دعا ہے۔ (۲) وہ امام نووی کی اپنی رائے ہے، حنفیہ کے نزدیک صرف صلاة یا صرف سلام دونوں بلاکراہت جائز ہیں، ونقل الحموی عن أصحابنا عن منیة المفتي: إنہ لا یکرہ عندنا إفراد أحدہما عن الآخر (أحکام القرآن: ۳/۴۹۸) (۳) صحیح بخاری ومسلم وغیرہ سب کتب حدیث میں یہ حدیث آئی ہے، کہ حضرت کعب بن عجرہ نے فرمایا کہ جب یہ آیت ”یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا“ نازل ہوئی تو ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آیت میں ہمیں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، صلاة اور سلام کا، سلام کاطریقہ تو ہمیں معلوم ہوچکا ہے، صلاة کا طریقہ بھی بتلادیجیے، آپ نے فرمایا کہ یہ الفاظ کہا کرو ”اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی إبراہیم وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراہیم وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید“ صلاة پڑھنا مستقل امر ہے اور سلام پڑھنے کا بھی مستقل حکم ہے اور دونوں کے خاص خاص صیغے ہیں، درود میں سب سے افضل درود درودِ ابراہیمی ہے، اس میں سلام کا لفظ نہ ہونا اس کے افضلیت کے منافی نہیں۔ (۴) اچھا تو یہی ہے کہ آپ دونوں پڑھ لیا کریں تاکہ دونوں کی فضیلت آپ کو حاصل ہوجائے دونوں کا پڑھنا ضروری نہیں ایک پر بھی اکتفا کرسکتے ہیں۔ (۵) جی ہاں پڑھ سکتے ہیں۔ (۶) درود کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ پاک وصاف باوضو ہوکر درود پڑھیں تفصیل کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ فضائل درود کا مطالعہ کرلیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند