• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 160383

    عنوان: استخارہ کیا ہے؟ اور اس كا طریقہ كیا ہے؟

    سوال: میں چند سوالات استخارہ کے متعلق سے ہے۔ (۱) استخارہ کیا ہے؟ (۲) استخارہ کیوں کرنا چاہئے؟ (۳) استخارہ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ (۴) کیا اس کا کوئی نقصان بھی ہے؟

    جواب نمبر: 160383

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:882-135T/sd=9/1439

    (۱)استخارے کے معنی ہیں: خیر طلب کرنا، یعنی: اپنے معاملے میں اللہ سے خیر اور بھلائی کی دعا کرنا، استخارے کے بعد اصل چیز دل کا رجحان ہے ، اس میں خواب کا نظر آنا ضروری نہیں ہے ، جس طرف دل مائل ہو، اُسی میں خیر سمجھنا چاہیے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا: ”یا أنس! إذا صممتَ بأمر، فاستخر رَبَّک فیہ سبع مرات، ثم انظر إلی الذی سبق إلی قلبک، فإن الخیرَ فیہ“ (شامی: ۲/۴۰۹-۴۱۰، دار إحیاء التراث العربی) حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: استخارے کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے جس سے مقصود طلب اِعانت علی الخیر ہے ، یعنی استخارے کے ذریعے بندہ خدا تعالی سے دعا کرتا ہے کہ میں جو کچھ کروں، اُسی کے اندر خیر ہو اور جو کام میرے لیے خیر نہ ہو،وہ کرنے ہی نہ دیجیے “۔ الخ (انفاس عیسی: ۲/ ۲۷۵بحوالہ استخارہ کیسے کریں، ص: ۲۳، مطبوعہ لاہور)لہذاجس امر کے بارے میں بھی استخارہ کیا جائے استخارے کے بعد دل کے میلان کو دیکھنا چاہیے ، جس طرف دل کا رجحان ہو، اسی میں خیر سمجھنی چاہیے ؛واضح رہے کہ استخارہ کی وجہ سے کسی امر کا کرنا یا نہ کرنا لازم اور ضروری نہیں ہوجاتا ہے ، نیز استخارے کے ساتھ ساتھ اہم امور میں مشورہ بھی مسنون ہے ۔ (مستفاد: شامی: ۲/۴۰۹- ۴۱۰، کتاب الصلاة، مطلب فی رکعتی الاستخارة، ط: دار احیاء التراث العربی، بیروت، امداد الفتاوی: ۲/۵۶۸، رسالہ نافع الاشارة الی منافع الاستخارہ، زکریا، دیوبند)

    (۲) استخارہ کرنا مسنون ہے ، اس لیے سنت سمجھ کر استخارہ کرنا چاہیے ۔

    (۳) استخارہ کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نفل نماز پڑھی جائے ، اس کے بعد پوری توجہ کے ساتھ یہ دعا پڑھے : اللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ، أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہفَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہفَاصْرِفُہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہ۔ قَالَ وَیُسَمِّیْ حَاجَتَہ۔ (صحیح البخاری رقم: ۱۱۶۶، سنن الترمذی ۴۰۸، سنن أبی داوٴد ۱۵۳۸)دعا پڑھتے ہوئے جب ہٰذا الأمر پر پہنچے تو دونوں جگہ اس کام کا دل میں دھیان جمائے جس کے لئے استخارہ کررہا ہے یا دعا پوری پڑھنے کے بعد اس کام کو ذکر کرے ۔ دعا کے شروع اور اخیر میں اللہ کی حمد وثناء اور درود شریف بھی ملالے ، اور اگر عربی میں دعا نہ پڑھی جاسکے تو اردو یا اپنی مادری زبان میں اسی مفہوم کی دعا مانگے۔ ومنہا رکعة الاستخارة عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الأمور کلہا … الخ۔ رواہ الجماعة إلا مسلمًا۔ شرح المنیة … ویسمی حاجتہ قال ط: أی بدل قولہ ہٰذا الأمر قلت: أو یقول بعدہ وہو کذا وکذا … وفی الحلیة: ویستحب افتتاح ہٰذا الدعاء وختمہ بالحمدلة والصلاة۔ (الدر المختار مع الشامی / باب الوتر والنوافل ۲/۴۷۰زکریا)

    (۴) استخارہ کا کوئی نقصان نہیں ہے ؛ بلکہ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے ، بشرطیکہ استخارہ کی حقیقت صحیح سمجھ کر عمل کیا جائے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند